یورپی یونین نے پاکستان میں سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی دیئے جانے کے سلسلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ان سزاؤں پر عملدرآمد پر پابندی عائد کی جائے۔
یورپی یونین کی ترجمان کیتھرین رے نے ایک بیان میں کہا کہ یورپی منڈیوں تک رسائی کی تجارتی مراعات حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پاکستان بین الاقوامی معاہدوں کی پابندی کرے۔
واضح رہے کہ یورپی یونین نے 2013 میں پاکستان کو ’جی ایس پی پلس‘ کا درجہ دیا جس کے بعد پاکستان کی مصنوعات خصوصاً ٹیکسٹائل کی مصنوعات یورپ کے 27 ملکوں تک بغیر کسی ڈیوٹی کے برآمد کی جاسکیں گی۔
یورپی یونین پاکستان کا اہم تجارتی شراکت دار ہے اور پاکستان کی سالانہ برآمدات کے 20 فیصد حصے کی منزل یورپی منڈیاں ہوتی ہیں۔ یورپ کو برآمد کی جانے والی مصنوعات میں سے 75 فیصد کا تعلق ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی صنعتوں سے ہے۔
پاکستان میں سزائے موت پر عمل درآمد کے آغاز کے بعد ہی سے یورپی یونین کی طرف سے اس بارے میں تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا۔
دسمبر 2014ء سے اب تک لگ بھگ 150 افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے۔
یورپی یونین نے اپنے بیان میں آفتاب بہادر اور شفقت حسین کے کیسوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں نے جرم کے وقت اپنی کم عمری اور حراست میں پولیس کی جانب سے اعترافِ جرم کے لیے تشدد کا دعویٰ کیا تھا، جس کی یورپی یونین کے بقول مناسب شنوائی نہیں کی گئی۔
آفتاب بہادر کو بدھ کی صبح پھانسی دے دی گئی تھی، جبکہ سپریم کورٹ نے شفقت حسین کی طرف سے اس کی عمر کے تعین کے لیے دی گئی درخواست کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اس معاملے کو یہاں ختم ہو جانا چاہیئے۔
یورپی یونین نے بیان میں کہا کہ ’’ملکی اور بین الاقوامی قانون کے تحت پاکستان کی ذمہ داری اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کو جرائم کے لیے سزائے موت نہ دی جائے اور ایسے کیسوں میں جہاں اس بات کے کافی شواہد موجود ہوں کہ پولیس کی جانب سے تشدد کیا گیا ہے تو اس کی فوری اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں۔‘‘
گزشتہ سال پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان نے سزائے موت پر چھ سال سے عائد پابندی ہٹا لی تھی۔
پاکستانی عہدیدار سزائے موت پر عمل درآمد سے متعلق بین الاقوامی خدشات کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے یہ کہتے رہے ہیں کہ ملک کو غیر معمولی حالات کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔