لندن —
امیگریشن کے بارے میں گرما گرم بحث صرف امریکہ میں ہی نہیں ہو رہی ہے۔ دنیا کے بہت سے حصوں میں، خاص طور سے یورپ میں جہاں خراب اقتصادی حالات کی وجہ سے پرانی کشیدگیاں پھر ابھر آئی ہیں، اس مسئلے پر شدید بحث ہو رہی ہے۔
روم کے تاریخی شہر میں فن تعمیر کے نادر نمونوں کی کمی نہیں۔ ان تاریخی عمارتوں کے درمیان، یہ ایک معمولی سی عمارت کا دروازہ ہے۔
یہاں تارکین وطن کے لیے ایک کونسلنگ سینٹر واقع ہے جسے کیتھولک چرچ چلاتا ہے۔ ان لوگوں میں سے کچھ کا تعلق یورپی یونین کے ملکوں سے ہے، اور کچھ کا بعض دوسرے ملکوں سے۔ یہ سب اقتصادی بحران کا شکار ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ بے روزگار ہیں اور انہیں حکومت کی طرف سے کوئی امداد نہیں ملتی، اور کچھ کو ان ملکوں کو واپس جانا ہو گا جہاں سے یہ آئے ہیں۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی ۔ ان لوگوں کو اٹلی اور دوسرے یورپی ملکوں کے لوگوں کی ناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان پر بے روزگاری کی شرح اونچی رکھنے اور دوسرے اقتصادی مسائل کا الزام عائد کیا جاتا ہے ۔
چرچ کے زیرِ اہتمام چلنے والے مائگریشن اسٹڈی سنٹر میں فادر رین مانینٹی اس مسئلے سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’جب کبھی کوئی بحران آتا ہے، تو تارکینِ وطن کی شامت آ جاتی ہے۔ اس کی وجہ بڑی سیدھی سادھی ہے۔ اگر ہم خود کو الزام دینے لگیں، تو پھر یہ ہمارا قصور ہو گا۔ مجھے اس کی ذمہ داری قبول کرنی ہو گی۔ اگر میں تارکینِ وطن کی طرف اشارہ کروں، تو پھر وہ ذمہ دار ہوں گے۔ پس، یہ میری نہیں ، ان کی غلطی ہے۔‘‘
اس نقطۂ نظر کا اس حالیہ انتخاب پر گہرا اثر ہوا جس میں برطانوی پارلیمینٹ میں ایک خالی نشست پُر کی جانی تھی۔ اس انتخاب میں ایک ایسی پارٹی جس کا نعرہ ہے کہ برطانیہ کو یورپی یونین سے نکل آنا چاہیئے، حیران کن حد تک دوسرے نمبر پر آئی۔ دوسری چیزوں کے علاوہ، برطانیہ کی انڈیپنڈنٹ پارٹی چاہتی ہے کہ امیگریشن کو موجودہ سطح پر منجمد کر دیا جائے اور یورپی یونین کے ملکوں کو آسانی سے برطانیہ میں آکر رہنے کی جو سہولت ہے اسے ختم کر دیا جائے۔
لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ تارکینِ وطن پر الزام تراشی میں مبالغے سے کام لیا جاتا ہے ۔ فادر رین مانینٹی کہتے ہیں ’’ظاہر ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس معاملے میں بھی، حقیقت کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ ایسا ضرور ہوتا ہے کہ بعض اوقات تارکینِ وطن اٹلی کے لوگوں کی ملازمتیں حاصل کر لیتے ہیں۔ بہت سے کیسوں میں تارکین وطن جو جاب کرتے ہیں وہ وہ ہوتے ہیں جو مختلف وجوہات کی بنا پر، اٹلی کے لوگ کرنا نہیں چاہتے۔ وہ وجوہات یہ ہو سکتی ہیں کہ تنخواہ بہت کم ہوتی ہے، کام کے اوقات بہت لمبے ہوتے ہیں،اور کام بہت سخت محنت کا ہوتا ہے ، جیسے کھیتوں کا کام۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ جب یورپی یونین کے بارے میں شروع میں سوچا گیا تھا ، تو خیال یہی تھا کہ اس طرح لوگ آزادی سے آ جا سکیں گے۔ پروفیسر جان سالٹ، یونیورسٹی کالج، لندن کے مائگریشن سینٹر کے ڈائریکٹر کے مطابق اس کا اثر بڑی حد تک نیوٹرل ہوتا ہے۔ لیکن سالٹ کو یہ پریشانی ضرور ہے کہ کم اجرت والے کارکنوں کی بہت بڑی تعداد، یورپ کی مضبوط معیشت والے ملکوں میں داخل ہو جائے گی اور طویل مدت کے دوران ان ملکوں پر اثر انداز ہو گی۔
’’اس صورتِ حال کو طویل عرصے کے لیے باقی نہیں رکھا جا سکتا، اگر آپ زمین کے استعمال، رہائشی سہولتوں پر دباؤ، پانی کی دستیابی ، توانائی کے خرچ اور توانائی کی پیدا وار کو ذہن میں رکھیں۔‘‘
یہ ایسا مسئلہ ہے جس سے یورپ نمٹنے کی کوشش کرتا رہے گا۔ یورپ کی کمزور معیشتوں والے ملکوں کے لوگ مضبوط معیشتوں میں روزگار تلاش کرتے رہیں گے اور یورپی یونین کے باہر کے ملکوں کے لوگ وہاں منتقل ہوتے رہیں گے کیوں کہ اپنے ملکوں میں رہنے کے بجائے ان کے لیے باہر نکل جانا بہتر ہو گا۔
روم کے تاریخی شہر میں فن تعمیر کے نادر نمونوں کی کمی نہیں۔ ان تاریخی عمارتوں کے درمیان، یہ ایک معمولی سی عمارت کا دروازہ ہے۔
یہاں تارکین وطن کے لیے ایک کونسلنگ سینٹر واقع ہے جسے کیتھولک چرچ چلاتا ہے۔ ان لوگوں میں سے کچھ کا تعلق یورپی یونین کے ملکوں سے ہے، اور کچھ کا بعض دوسرے ملکوں سے۔ یہ سب اقتصادی بحران کا شکار ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ بے روزگار ہیں اور انہیں حکومت کی طرف سے کوئی امداد نہیں ملتی، اور کچھ کو ان ملکوں کو واپس جانا ہو گا جہاں سے یہ آئے ہیں۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی ۔ ان لوگوں کو اٹلی اور دوسرے یورپی ملکوں کے لوگوں کی ناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان پر بے روزگاری کی شرح اونچی رکھنے اور دوسرے اقتصادی مسائل کا الزام عائد کیا جاتا ہے ۔
چرچ کے زیرِ اہتمام چلنے والے مائگریشن اسٹڈی سنٹر میں فادر رین مانینٹی اس مسئلے سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’جب کبھی کوئی بحران آتا ہے، تو تارکینِ وطن کی شامت آ جاتی ہے۔ اس کی وجہ بڑی سیدھی سادھی ہے۔ اگر ہم خود کو الزام دینے لگیں، تو پھر یہ ہمارا قصور ہو گا۔ مجھے اس کی ذمہ داری قبول کرنی ہو گی۔ اگر میں تارکینِ وطن کی طرف اشارہ کروں، تو پھر وہ ذمہ دار ہوں گے۔ پس، یہ میری نہیں ، ان کی غلطی ہے۔‘‘
اس نقطۂ نظر کا اس حالیہ انتخاب پر گہرا اثر ہوا جس میں برطانوی پارلیمینٹ میں ایک خالی نشست پُر کی جانی تھی۔ اس انتخاب میں ایک ایسی پارٹی جس کا نعرہ ہے کہ برطانیہ کو یورپی یونین سے نکل آنا چاہیئے، حیران کن حد تک دوسرے نمبر پر آئی۔ دوسری چیزوں کے علاوہ، برطانیہ کی انڈیپنڈنٹ پارٹی چاہتی ہے کہ امیگریشن کو موجودہ سطح پر منجمد کر دیا جائے اور یورپی یونین کے ملکوں کو آسانی سے برطانیہ میں آکر رہنے کی جو سہولت ہے اسے ختم کر دیا جائے۔
لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ تارکینِ وطن پر الزام تراشی میں مبالغے سے کام لیا جاتا ہے ۔ فادر رین مانینٹی کہتے ہیں ’’ظاہر ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس معاملے میں بھی، حقیقت کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ ایسا ضرور ہوتا ہے کہ بعض اوقات تارکینِ وطن اٹلی کے لوگوں کی ملازمتیں حاصل کر لیتے ہیں۔ بہت سے کیسوں میں تارکین وطن جو جاب کرتے ہیں وہ وہ ہوتے ہیں جو مختلف وجوہات کی بنا پر، اٹلی کے لوگ کرنا نہیں چاہتے۔ وہ وجوہات یہ ہو سکتی ہیں کہ تنخواہ بہت کم ہوتی ہے، کام کے اوقات بہت لمبے ہوتے ہیں،اور کام بہت سخت محنت کا ہوتا ہے ، جیسے کھیتوں کا کام۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ جب یورپی یونین کے بارے میں شروع میں سوچا گیا تھا ، تو خیال یہی تھا کہ اس طرح لوگ آزادی سے آ جا سکیں گے۔ پروفیسر جان سالٹ، یونیورسٹی کالج، لندن کے مائگریشن سینٹر کے ڈائریکٹر کے مطابق اس کا اثر بڑی حد تک نیوٹرل ہوتا ہے۔ لیکن سالٹ کو یہ پریشانی ضرور ہے کہ کم اجرت والے کارکنوں کی بہت بڑی تعداد، یورپ کی مضبوط معیشت والے ملکوں میں داخل ہو جائے گی اور طویل مدت کے دوران ان ملکوں پر اثر انداز ہو گی۔
’’اس صورتِ حال کو طویل عرصے کے لیے باقی نہیں رکھا جا سکتا، اگر آپ زمین کے استعمال، رہائشی سہولتوں پر دباؤ، پانی کی دستیابی ، توانائی کے خرچ اور توانائی کی پیدا وار کو ذہن میں رکھیں۔‘‘
یہ ایسا مسئلہ ہے جس سے یورپ نمٹنے کی کوشش کرتا رہے گا۔ یورپ کی کمزور معیشتوں والے ملکوں کے لوگ مضبوط معیشتوں میں روزگار تلاش کرتے رہیں گے اور یورپی یونین کے باہر کے ملکوں کے لوگ وہاں منتقل ہوتے رہیں گے کیوں کہ اپنے ملکوں میں رہنے کے بجائے ان کے لیے باہر نکل جانا بہتر ہو گا۔