تارکین وطن کو ترکی واپس بھیجنے سے متعلق طے پانے والے معاہدے کے باوجود سیکڑوں تارکین وطن کی خستہ حال کشتیوں کے ذریعے یونان آمد اتوار کو بھی جاری رہی، ان میں زیادہ تعداد ان شامی پناہ گزینوں کی ہے جو پانچ سال سے جاری شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑ رہے ہیں۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ تقریباً 900 تارکین وطن جن میں شامی عراقی اور افغان شہری شامل ہیں اتوار کی رات کو ایجین کے چار جزیروں پر پہنچے۔
حکام کا کہنا ہے کہ دو شامی پناہ گزین ایک کشتی میں مردہ پائے گئے اور دو لڑکیاں یونان کے زیر کنٹرول رہوڈز کے جزیرے کے قریب ترکی کی آبی حدود میں ڈوب گئیں۔ جبکہ ہلال احمر نے لیبیا کے ساحل کے قریب 9 مزید تارکین وطن کی موت کی اطلاع دی ہے۔
جمعہ کو یورپی یونین اور انقرہ کی حکومت کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت 20 مارچ کے بعد ترکی سے سمندری راستے کے ذریعے یونان پہنچے والے تارکین وطن بشمول شامی تارکین وطن کے اندراج اور ان کے پناہ کے دعوؤں کا جائزہ لینے کے بعد انہیں واپس بھیج دیا جائے گا۔
تاہم عہدیدار اب بھی متنبہ کر رہے ہیں کہ اس بارے میں قواعد و ضوابط پر کام چار اپریل سے پہلے مکمل نہیں ہو گا اور اس کا انحصار یورپی یونین کی طرف سے 4,000 افراد پر مشتمل عملے کی فراہمی پر ہے جس میں جج، مترجم اور محافظ شامل ہیں جو ہر ایک تارکین وطن کے معاملے کا انفرادی طور پر جائزے لیں گے۔
اس معاہدے کے تحت یہ ضروری ہو گا کہ انقرہ کی حکومت جو پہلے ہی 25 لاکھ شامی تارکین وطن کی میزبانی کر رہی ہے وہ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی کے لیے اقدامات کو تیز کرے گی۔
جب کہ معاہدے میں یورپی یونین کی طرف سے چھ ارب 60 کروڑ ڈالر امداد کا وعدہ بھی شامل ہے تاکہ ترکی میں اندرونی طور پر درپیش (تارکین وطن کے ) بحران سے نمٹا جا سکے۔
اتوار کے صبح سے پہلے یونان پہنچنے والے تارکین وطن کے معاملے کو پرانے طریقہ کار کے تحت طے کیا جائے گا جس کے مطابق ترکی واپس آنے والے ایک شامی تارکین وطن کے بدلے میں ایک تارکین وطن کو یورپی ملکوں میں آباد کیا جائے گا۔