یورپی یونین پولیس ایجنسی (یوروپول) کے مطابق، پچھلے برس کے مقابلے میں، سال 2015کے دوران یورپ بھر میں دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا۔
بدھ کے روز جاری کی گئی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ایسے میں جب مغربی اتحاد شام اور عراق میں اپنا دباؤ بڑھا رہے ہے، داعش ’’بیرونِ ملک کارروائیوں میں زیادہ تیزی لاسکتی ہے‘‘۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یورپی یونین کے ملکوں میں دہشت گرد حملوں کے نتیجے میں 151 افراد ہلاک جب کہ 360 سے زائد زخمی ہوئے۔ ’یوروپول‘ کا ادارہ ہیگ میں قائم ہے۔ یورپی یونین کے چھ رُکن ممالک میں 211 حملے یا تو ناکام ہوئے یا پھر اُنھیں ناکام بنایا گیا۔
یوروپول نے بتایا ہے کہ دہشت گردی سے متعلق جرائم میں 1077 افراد گرفتار ہوئے، جن میں سے 424 فرانس میں زیر حراست ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات کے دوران 94 فی صد مشتبہ افراد مجرم پائے گئے۔
یوروپول نے حالیہ دِنوں فرانس، جرمنی اور امریکہ میں ہونے والے چار دہشت گرد حملوں کے بارے میں ایک علیحدہ بیان بھی جاری کیا؛ (جن میں سے امریکہ میں اورلینڈو؛ فرانس میں مگناویل اور نیس اور جرمنی میں ووزبرگ شامل ہیں)، یہ کہتے ہوئے کہ یہ ’’اکیلے سر پھرے دہشت گرد کی کارستانی لگتی ہے، جس کی شناخت اور اُسے ناکام بنانے میں فی الواقع مشکلات پیش آتی ہیں‘‘۔ ایسی کارروائیاں داعش اور القاعدہ کے پسندیدہ حربے معلوم ہوتے ہیں۔
یوروپول نے کہا ہے کہ باوجود اِس کے کہ حملہ آور داعش کے گروپ سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں، ’’داعش کے ملوث ہونےکے معاملے کا تعین نہیں ہوسکتا‘‘۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ داعش نے کہا ہے کہ وہ اکثر کم سن بچوں کی تربیت کرتا ہے تاکہ وہ ’’آگے جا کر غیر ملکی لڑاکے بنیں، جو مستقبل میں سکیورٹی کے لیے خطرے کا باعث ہوں گے‘‘۔
داعش اور القاعدہ دونوں نے مغربی ملکوں میں مقیم مسلمانوں پر بارہا زور دیا ہے کہ وہ اپنے ملکوں میں اکیلے سر وار کریں۔