امریکہ کے وزیر دفاع مارک ایسپر نے جمعے کے روز کہا کہ واشنگٹن اپنے اتحادی شامی کردوں کے زیر قبضہ مشرقی شام میں تیل کی تنصیبات تک داعش کی رسائی روکنے کے لیے معقول تعداد میں اپنے فوجی اور بکتر بند گاڑیاں تعینات کرے گا۔
ایک امریکی عہدے دار نے بتایا کہ آئل فیلڈ کے تحفظ کے لیے ممکنہ طور پر ٹینک بھی رکھے جائیں گے۔
پچھلے ہفتے صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ شام سے اپنے ایک ہزار فوجی واپس بلا رہا ہے۔
وزیر دفاع نے یہ تصدیق تو کی ہے کہ امریکہ علاقے میں بکتر بند فوجی بھیج رہا ہے۔ تاہم, انہوں نے اس کی کوئی تفصیل نہیں دی اور نہ ہی فوجیوں کی تعداد کے بارے میں بتایا ہے۔
نیٹو کے ہیڈ کوارٹرز برسلز میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ہم اس بارے میں سوچ بچار کر رہے ہیں کہ مشرقی شام میں تیل کی تنصیبات کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے علاقے میں اپنی فورسز کی پوزیشن میں کیا تبدیلی کر سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم وہاں اپنی طاقت میں اضافہ کر رہے ہیں جس میں مشینی قوت رکھنے والے فوجی دستے بھی شامل ہیں۔
ایک فوجی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اعلیٰ فوجی عہدے دار شام میں داعش کو دوبارہ ابھرنے سے روکنے کے لیے وہاں اپنے فوجی دستے برقرار رکھنے پر زور دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکہ اور ان کے کرد اتحادیوں نے داعش کی زیادہ تر قوت تباہ کر دی ہے۔ لیکن، وہ اب بھی شام اور عراق کی کچھ حصوں میں چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں موجود ہیں جو موقع ملنے پر اپنی بکھری ہوئی قوت مجتمع کر سکتے ہیں۔
پنٹاگان نے جمعرات کو ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ مشرقی شام میں واقع تیل کی تنصیبات کو دوبارہ داعش اور دوسرے تحریب کار عناصر کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے وہاں اضافی فوجی دستے بھیجنے کے لیے پر عزم ہے۔
دوسری جانب، روس کی وزارت دفاع کے جمعے کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے شام اور ترکی کی سرحد پر گشت کے لیے ملٹری پولیس کے 300 اہل کار بھیج دیے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ روسی فوجی اہل کار علاقے کی سویلین آبادی کے تحفظ کو یقینی بنانے اور کرد ملیشیا کو سرحد سے 30 کلومیٹر پیچھے جانے میں مدد کریں گے۔
ترکی اپنی سرحد کے ساتھ شام کے 30 کلومیٹر کے علاقے میں ایک امن زون قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ وہاں شام کے پناہ گزینوں کو آباد کیا جا سکے۔