اقوام متحدہ نے بدھ کو انتباہ جاری کیا ہے کہ افغانستان کے وسطی اور مشرقی علاقوں میں سنگین لڑائی کے نتیجے میں انسانی بحرانی صورت حال شدید تر ہو گئی ہے۔
عالمی ادارے نے لڑائی میں ملوث فریق پر زور دیا ہے کہ وہ شہری آبادی جو متاثرہ اضلاع سے نکلنا چاہتی ہے اُسے محفوظ راستہ فراہم کیا جائے۔
نومبر کے اوائل میں صوبہٴ ارزگان کے خاص ارزگان ضلعے میں طالبان کی اندرونی مخاصمانہ کارروائیاں چھڑ چکی ہیں۔ یہ وہ طالبان ہیں جنھیں مقامی پشتون برادریوں اور حکومت کی حامی شیعہ ہزارہ ملیشیاؤں کی حمایت حاصل ہے۔ یہ لڑائی ہمسایہ صوبہٴ غزنی کےجاغوری اور مالستان اضلاع کی جانب پھیل چکی ہے۔
بیسیوں افغان سکیورٹی فورسز اور باغی عسکریت پسند ہلاک ہو چکے ہیں، اور ہفتے سے یہ تنازع سنگین صورت اختیار کر گیا ہے، جس میں حکومت کی حامی افواج برَی حربی اور فضائی کارروائیاں کر رہی ہیں۔
ایک بیان میں اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے ادارے نے کہا ہے کہ ’’متاثرہ اضلاع میں صورت حال بگڑ چکی ہے، جب کہ تحفظ کی تلاش میں متاثرہ اہل خانہ ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں۔‘‘
یہ تنازع مہلک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، جس میں فرقہ وارانہ تنازعات نے بدتر صورت اختیار کر لی ہے۔
افغان سولینز کا بھی جانی نقصان ہوا ہے۔ لیکن، اقوام متحدہ کے ادارے نے فوری طور پر اعداد و شمار نہیں بتائے۔ لڑائی کے علاقے سے آنے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ نجی گھروں اور املاک کو نذر آتش کیا گیا ہے، جب کہ انسانی ہمدردی کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئےسولین گاڑیوں کو یا تو چوری کیا گیا یا پھر بحقِ سرکار ضبط کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے نے اس بات کی جانب توجہ دلائی ہے کہ ’’جاغوری اور مالستان کو صوبائی دارالحکومت غزنی سے ملانے والی سڑکیں بند کردی گئی ہیں، جہاں لوگ محصور ہو کر رہ گئے ہیں، جنھیں صحت کی سہولیتیں دستیاب نہیں ہیں، جب کہ خوراک، ایندھن اور ادویات کی فراہمی ختم ہو چکی ہے‘‘۔