پاکستان کے الیکشن کمیشن نے رواں ماہ کے وسط میں حکومت کی طرف سے اعلان کردہ کسان پیکج کو انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی تین شقوں پر تین دسمبر تک عمل درآمد روک دیا ہے۔
جن شقوں پر عمل درآمد روکا گیا اُن میں 12 ایکڑ اراضی والے کسانوں کے لیے 5 ہزار روپے فی ایکڑ امدادی رقم کی فراہمی کے علاوہ کپاس اور گندم کاشت کرنے والے کسانوں کے لیے شرح سود میں دو فیصد کمی شامل ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے صوبہ سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری ہونے کے بعد 15 ستمبر کو کسانوں کے لیے 341 ارب روپے کے زرعی پیکج کا اعلان کیا تھا جس کے خلاف پاکستان تحریک انصاف نے اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا۔
ان کا مؤقف تھا کہ کسان پیکج میں سرکاری پیسہ استعمال کر کے انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے جس پر کمیشن نے حکمران جماعت اور متعلقہ اداروں سے جواب طلب کیا تھا۔ دونوں جانب سے دلائل سننے کے بعد کمیشن نے منگل کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جس کا اعلان بدھ کو کیا گیا۔
ملک بھر کے کاشتکار گزشتہ کئی ماہ سے اپنی فصلوں کی گرتی ہوئی قیمتوں اور پیداواری لاگت میں اضافے پر سراپا احتجاج تھے جس کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے ریلیف پیکج کا اعلان کیا۔
وزیر اعظم نے امدادی پیکج میں کپاس اور چاول کے چھوٹے کسانوں کی براہ راست مالی معاونت کے علاوہ کھاد کی قیمتوں میں کمی، زرعی قرضوں کی فراہمی، فصلوں کے لیے انشورنس اور شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویلوں کی تنصیب کا بھی اعلان کیا تھا۔
حکومت کی طرف سے اس پیکج کے اعلان کے بعد ذرائع ابلاغ میں اس کی بھرپور تشہر بھی جاری تھی۔
تاہم زرعی پیکج کے وہ حصے جن کا ذکر بجٹ تقریر میں پہلے ہی کیا جا چکا ہے ان پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی ہے۔