رسائی کے لنکس

اتوار کو بھی مصرکشیدگی کی لپیٹ میں


اتوار کو بھی مصرکشیدگی کی لپیٹ میں
اتوار کو بھی مصرکشیدگی کی لپیٹ میں

مصر میں صدر حسنی مبارک کے اقتدار کے خلاف جاری احتجاج کے باعث ملک میں صورت حال اتوار کو مسلسل چھٹے روز بھی کشیدہ ہے اور قاہرہ سمیت مختلف شہروں میں ہنگاموں کی حوصلہ شکنی کے لیے فوجی دستے سڑکوں پر موجود ہیں۔

مصر کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق حکومت نے پرتشدد احتجاجی مظاہروں کی تفصیلاً تشہیر کرنے والی بین الاقوامی نیوز ایجنسی ’الجزیرہ‘ کے قاہرہ میں دفاتر کو بند کرنے کا حکم دیا ہے۔

ملک میں جاری تشدد کی لہر کے دوران کم از کم ایک جیل سے ہزاروں کی تعداد میں قیدیوں کے فرار ہونے کی بھی اطلاع ہے۔

صدر حسنی مبارک کی طرف سے اتوار کو حکومت کے نئے اراکین کے ناموں کا اعلان بھی متوقع ہے۔ ایک روز قبل اُنھوں نے انٹیلی جنس کے سربراہ عمر سلیمان کو نائب صدر کے عہدے پر فائض کرنے کے علاوہ ہوابازی کے وزیر احمد شفیق کو وزیر اعظم نامزد کر کے نئی کابینہ تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی۔

حکومت مخالف نوبل انعام یافتہ رہنما محمد البرادی نے کابینہ کے نئے ارکان کی تقرری کے صدر حُسنی مبارک کے اقدامات کو ناکافی قرار دیا ہے۔انھوں نے الجزیرہ ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ مظاہرین حکومت کی تبدیلی اور آمریت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

دارالحکومت قاہرہ میں لوٹ مار کے واقعات کے بعد رہائشیوں نے اپنی املاک کی حفاظت کے لیے محلوں میں پہراداری ٹیمیں تشکیل دے رکھی ہیں۔

سڑکوں پر گشت کرنے والے فوجی دستوں نے مقبول تاریخی مقامات بشمول قاہرہ کا عجائب گھر اور اہرام مصرجانے والے راستوں کو بند کر دیا ہے۔ جمعہ کو احتجاجی مظاہروں کو روکنے کی کوششوں کے سلسلے میں حکومت نے موبائل فون کمپنیوں کو اپنی سروس معطل کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم چوبیس گھنٹوں بعد ہفتہ کو دو موبائل فون کمپنیوں نے اپنی سروس بحال کردی۔

گذشتہ تقریباً ایک ہفتے کے دوران ہزاروں کی تعداد میں شہریوں نے قاہرہ اور سکندریہ کی سڑکوں پر صدر مبارک اور ان کے حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے اور ان مظاہروں کے دوران کم از کم 100 افراد کے ہلاک اور لگ بھگ ایک ہزار کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

عینی شاہدین کے مطابق پروازوں میں تاخیر یا منسوخی کی وجہ سے دارالحکومت قاہرہ کے ہوائی اڈے پر ہزاروں مسافر پھنسے ہوئے ہیں۔ کئی عرب ملکوں نے اپنے شہریوں کو مصر سے انخلاء کے اقدامات کیے ہیں۔

XS
SM
MD
LG