منگل کے روز استغاثے کے بڑے وکیل نے کہا کہ مسٹر مبارک ایک جابر و ظالم لیڈر تھے جنھوں نے اقتدار اپنے چھوٹے بیٹے، جمال کے حوالے کرنے کی کوشش کی، ملک میں بد عنوانیاں پھیلائیں، اور اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے لیے کرپشن کے دروازے کھول دیے ، اور کسی جوابدہی کے بغیر، ملک کو تباہ کر دیا ۔
83 سالہ سابق صدر کے خلاف مصطفی سلیمان کے تند و تیز حملے کے بعد، دوسرے ملزم سابق وزیرِ داخلہ حبیب العدلی کے بارے میں سخت الفاظ کہے گئے۔ وکیل ِ استغاثہ نے دلیل پیش کی کہ انھوں نے حکومت کو بر سرِ اقتدار رکھنے کے لیے مصریوں کے خلاف ظلم اور تشدد استعمال کیا۔ خاص طور سے گذشتہ سال حکومت کے خلاف مظاہروں کے دوران، جن میں 800 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ دونوں افراد نے اپنے خلاف الزامات کی صحت سے انکار کیا ہے ۔
مظاہرین نے بالآخر مبارک اور عدلی دونوں کو اقتدار سے محروم کر دیا، لیکن احتجاج مکمل طور سے کبھی نہیں رکے ۔ اصل فرق اب یہ ہے کہ لوگوں کی ناراضگی کا رخ عبوری فوجی حکمرانوں کی طرف ہے جنھوں نے قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں مظاہرین کے خلاف بار بار کارروائی کی ہے ۔
لیکن مصر ی اخبار کی ایڈیٹر اور سیاسی تجزیہ کار رانیا المالکی کہتی ہیں کہ مسلح افواج کی سپریم کونسل یا ایس سی اے ایف نے بڑی ہوشیاری سے مبارک حکومت کے اقدامات اور اپنی کارروائیوں کے درمیان موازنہ نہیں ہونے دیا ہے۔’’میں سمجھتی ہوں کہ مسلح افواج کی سپریم کونسل یا ایس سی اے ایف نے جبر و استبداد جاری رکھا ہے، لیکن میرے خیال میں جو لوگ مقدمے کی کارروائی دیکھیں گے یا اس کے بارے میں پڑھیں گے، وہ مبارک کے دور اور موجودہ زمانے کی زیادتیوں کے درمیان کوئی تعلق قائم نہیں کریں گے ۔ گذشتہ مہینے کے دوران ایس سی اے ایف نے میڈیا کو اس طرح کنٹرول کیا ہے کہ لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ آج کل جو کچھ ہو رہا ہے، اور ایس سی اے ایف نے جو زیادتیاں کی ہیں، وہ مصر کو غیر ملکی سازشوں سے بچانے کے لیے جائز ہیں۔‘‘
مصر کے اندرونی معاملات میں غیر ملکی اثر و رسوخ کے الزام کو بعض حلقوں میں قبول کر لیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں پر حال ہی میں جو چھاپے مارے گئے ہیں ، انہیں غیر ملکی مداخلت کے خاتمے کے لیے جائز سمجھا گیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ بہت سے مصریوں کو آج کل ہونے والے احتجاجوں اور مظاہرین کے خلاف کارروائیوں کی فکر کم ہے اور ایوانِ زیریں کے پارلیمانی انتخابات کی زیادہ ، جو اب تیسرے اور آخری مرحلے میں ہیں۔
لیکن آنے والے چند ہفتوں میں حالات بدل سکتے ہیں۔ نو منتخب قانون ساز اس مہینے کے آخر میں جمع ہوں گے، اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس سوال پر کہ پارلیمینٹ کو کیا اختیارات ملیں گے اور یہ عمل کتنی جلدی مکمل ہو گا، مسلح افواج کی سپریم کونسل اور منتخب نمائندوں کے درمیان فیصلہ کن مقابلہ ہو سکتا ہے ۔
اس کے صرف دو دن بعد،25 جنوری کو، توقع ہے کہ احتجاجی مظاہرین مسٹر مبارک کے خلاف بغاوت کی پہلی برسی منائیں گے اور یہ امکان بھی ہے کہ مسلح افواج کی سپریم کونسل کے سربراہ فیلڈ مارشل محمد حسین طنطاوی مسٹر مبارک کے مقدمے میں گواہی دینے آئیں گے ۔
ایڈیٹر المالی کہتی ہیں کہ انہیں شبہ ہے کہ جج استغاثے کے وکیلوں کی اس درخواست کو منظور کریں گے کہ طنطاوی پر جرح کی جائے، اور اگر جج یہ درخواست مان بھی جاتے ہیں، تو بھی امکان یہی ہے کہ طنطاوی اپنے اسی بیان پر ڈٹے رہیں گے جو انھوں نے حکومت کے مخالفین کے خلاف کارروائیوں کے بارے میں پہلے دیا تھا ۔
المالکی کہتی ہیں’’میرے خیال میں وہ کوئی مختلف بات نہیں کہیں گے ۔ وہ بالکل وہی بات کہیں گے جو وہ پہلے کہہ چکے ہیں ، جو یہ تھی کہ مبارک نے احتجاج کرنے والوں پر کبھی گولی چلانے کا حکم نہیں دیا۔‘‘
یہ بالکل وہی بات ہے جو طنطاوی اپنی موجود حکومت کے بارے میں کہہ رہے ہیں، اگرچہ حالیہ ہفتوں کے دوران درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔