مصر یقیناً اہراموں، شاندار مندر اور دریائے نیل کی سیاحت سمیت قدیم دنیا کے عظیم ورثے کو دیکھنے کے لیے ایک اہم جگہ ہے لیکن, پچھلے چند سالوں میں یہاں کی داخلی شورش کے باعث مصر میں سیاحت کا شعبہ بری طرح سے متاثر ہوا ہے جبکہ مصر کی معیشت کے لیے سیاحتی شعبہ ایک اہم ستون کا درجہ رکھتا ہے۔
تاہم رواں برس مصری حکام کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ مصری سیاحت بحران کے اثرات سے نکلنے کے بعد ایک بار پھر سے معیشت کو اربوں ڈالرز کی آمدنی دینے والی وزارت بننے کی طرف گامزن ہو گئی ہے اور سال 2015 کی ابتداء کو سیاحت کے لیےایک نیک شگون قرار دیا جارہا ہے ۔
مصر میں سوڈان کی سرحد کے قریب دریائے نیل کے کنارے اسوان شہر آباد ہے جو پرشکوہ فراعنہ کھنڈرات اور قدیم مندروں کی سیاحت کا شوق رکھنے والوں کے لیے انتہائی پرکشش مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ مصرمیں سیاحت کے لیے یہ ایک بہترین موقع ہوتا ہےجب موسم آہستہ آہستہ سرد ہوتا جاتا ہے لیکن گذشتہ سالوں کے بحرانوں کے دوران مصر کی مجموعی قومی پیداوار میں لگ بھگ گیارہ فیصد کی حصہ دار صنعت کو سب سے زیادہ دھچکا پہنچا ہے۔ مصر کے دیگر شہروں کی طرح اسوان بھی 2011 کے انقلاب میں حسنی مبارک کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے سیاسی عدم استحکام اور پر تشدد حالات کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔
مصر کےمقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے سال کے موقع پر لگ بھگ 1,400 سیاح اسوان کے تاریخی کھنڈرات اور ابوسمبل اور نیفرتاری جیسے عظیم الشان مندروں کو دیکھنے کے لیے مصر پہنچے تھے یہ تعداد سن 2011 کے بعد سے اس تاریخی مقام کا دورہ کرنے والوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔
روزنامہ صدا البلد کے مطابق ابوسمبل نوادرات کے ادارے کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جمعرات کو نئے سال کے موقع پر یہ سیاح زیادہ تر چین، جرمنی، فرانس، اسپین، اٹلی اور برطانیہ سے یہاں آئے تھے۔
واضح رہے کہ مصر کے تاریخی مقامات اور کھنڈرات کی سیاحت کا شوق رکھنے والوں میں بڑی تعداد کا تعلق یورپی ممالک، روس اور امریکہ سے ہے لیکن پچھلے تین برسوں میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے متعدد ملکوں کی طرف سے اپنے شہریوں کو مصر کا سفر کرنے سے گریز کی ہدایت جاری کی ہیں جس کی وجہ سے یہاں سیاحوں کی آمد نا ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
مصری حکومت کی جانب سےگذشتہ برس توقع ظاہر کی گئی تھی کہ رواں سال 28 لاکھ سیاحوں کی آمد سے ملک کی سیاحت کی صنعت کو فروغ حاصل ہو سکے گا جبکہ سرکاری اعداد و شمار کے تحت یہ شرح پچھلے سالوں کے مقابلے میں صرف 20 فیصد بنتی ہے۔
مصر دنیا بھر میں فراعنہ مصر یا سلاطین مصر کےمخروطی میناروں اہرام مصر کی وجہ سے شہرت رکھتا ہےجبکہ یہاں آنے والوں کے لیے دنیا کے طویل دریا دریائے نیل کی سیاحت اور اس کے کنارے واقع اسوان بند، جھیل ناصر اور اسوان کے ایک چھوٹے سے گاؤں نوبیا کے مقام پر فرعون رامیس دوئم کے تعمیر کردہ تقریباً 1200 قبل مسیح پرانے دو مندر پر کشش ترین مقام سمجھے جاتے ہیں۔
فرعون رامیس دوئم کا بہت بڑا مندر ابو سمبل ہے، یہاں اس کے چار بڑے مجسمے ہیں۔ یہ ڈھلوان پر چٹانوں کو تراش کر بنایا گیا تھا۔ یہ مندر ایک سو فٹ بلند ہے جس کی تعمیر 1244قبل مسیح میں شروع ہوئی اور 20 برس بعد 1264 میں مکمل کی گئی۔
دریائے نیل کے کنارے چھوٹا مندر نیفرتاری ہے جس کی بلندی 65 فٹ ہے۔ مندر کے پچھلے حصے میں 14 کمرے ہیں یہاں کی تمام دیواریں نقش و نگار سے آراستہ ہیں اور ستونوں پر فرعون کی تصاویر ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ نیفتاری فرعون رامیس اول کی بیویوں میں سے ایک بیوی کا نام تھا، نیفرتاری کا مطلب خوبصورتی ہے۔
قدیم مصری تاریخ کی آخری ملکہ، حسن و خوبصورتی کی علامت قلو پطرہ ہفتم کے علاوہ مصری تاریخ میں نیفرتاری کو ملکہ حسن کا اعزاز حاصل ہوا اسی لیے فرعون رامیس نے ابو سمبل مندر کے برابر میں ملکہ کے نام کا یادگار مندر تعمیر کرایا تھا۔
تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اٹھارویں صدی میں یورپی سیاحوں نے افریقہ کے اندرونی علاقے دریافت کرنا شروع کئے تھے جبکہ اسوان کے قدیم مندروں کو بعد میں 1813میں سوئٹزرلینڈ کے سیاح جان لوئیس برک ہارٹ نے دریافت کیا تھا۔
دریائے نیل کا شمالی حصہ سوڈان سے مصر تک مکمل طور پر صحرا سے گزرتا ہے۔ جنوبی مصر میں اس دریا پر برطانوی دور میں 1902 میں مشہور قدیم اسوان بند تعمیر کیا گیا تھا لیکن ہر سال بند میں پانی کی سطح بلند ہو جانے کی وجہ سے 1970میں مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے اپنے دور حکومت میں یہاں نیا بند تعمیر کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو اس منصوبے سے ان مندروں کی تباہی کا خطرہ پیدا ہوا۔ آخر کار اٹلی کی ایک یہ تجویز منظور کر لی گئی کہ مندروں کو کاٹ کر نیل کی سطح سے بلند ایک چبوترے پر نصب کر دیا جائے اس مہم پر1961 میں یونیسکو کے زیر انتظام کام شروع ہوا اور اسوان بند کی تعمیر سے قبل یہ مندر اس جگہ سے ہٹا کر محفوظ مقام پر پہنچا دیے گئے۔