رسائی کے لنکس

تعلیم سے غربت پر قابو پانا کیونکر ممکن ہے ؟


خود کو فخر سے پاکستان کے سرکاری سکولوں کی پیداوار قرار دینے والی فل برائٹ پی ایچ ڈی طالبہ طیبہ بتول کہتی ہیں کہ پاکستان کے تعلیمی نظام کی اصلاح کے لئے تبدیلی باہر سے نہیں اندر سے لانی پڑے گی۔

ہماری آپ کی اسی زمین پر چلتے پھرتے،باتیں کرتے، چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کو حسرت بنتے دیکھتے ،وہ تمام انسان، جن کی روز کی آمدنی ایک امریکی ڈالر یعنی تقریبا پچاسی روپےسے کم ہے، ماہرین اقتصادیات کی تعریف کے مطابق غریب کہلاتے ہیں۔ ایسے غریب انسان پیدا کرنےمیں پاکستان بھارت، چین اور نائیجیریا کے بعد دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ دنیا کی آبادی کے تین اعشاریہ آٹھ چھ فیصد غریب انسان پاکستان میں رہتے ہیں اورپاکستان کی اٹھارہ کروڑ کو پہنچتی آبادی میں ایسے انسانوں کی تعداد پیتیس فیصد ہے۔ ماہرین معاشیات بھوک کا رشتہ پیٹ سے اور زندگی بہتر بنانے کے مواقعوں کا رشتہ تعلیم سے جوڑتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنے تعلیمی شعبے کو اپنی معاشی ضروریات سے منسلک کرکے عالمی معیشت کا حصہ بننے کی ضرورت ہے۔

ماہر معاشیات زبیر اقبال کہتے ہیں کہ عالمی انسانی ترقی کے اشاریوں میں پاکستان تعلیم ، صحت ، میعار زندگی ، انسانی حقوق اور دیگر معاملات کے لحاظ سے ایک سو پچاسی ملکوں میں ایک سو اڑتیسویں نمبر پر ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستان پی ایچ ڈیز کی نہیں ، تکینیکی تعلیم و تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہے ۔کیونکہ پاکستان میں تکینیکی تعلیم و تربیت یافتہ افراد کی سالانہ آمدنی غیر ہنر مند تعلیم یافتہ افراد کے مقابلے میں تیرہ سے چودہ فیصد زیادہ ہے۔

لیکن اسی پاکستان میں جہاں پرائمری سکول جانےو الے آدھے بچے کبھی پرائمری تعلیم مکمل نہیں کر پاتے، اس وقت تین ہزار آٹھ سو افرادپاکستان کے اندر اور دو ہزار آٹھ سو امریکہ سمیت دیگر مغربی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی یا ڈاکٹریٹ مکمل کر رہے ہیں۔

پاکستانی ماہر تعلیم ڈاکٹر صبیحہ منصور کہتی ہیں کہ دس سال پہلے مشرف حکومت کی متعارف کردہ ہائیر ایجو کیشن ریفارمز کی وجہ سے پی ایچ ڈی پروگرامز کے لئے پر کشش ترغیبات پیدا کی گئیں جس کی وجہ سے گزشتہ آٹھ سالوں میں تین ہزار دو سو اسی پاکستانیوں نے ملک کے اندر اور باہر پی ایچ ڈی مکمل کی ۔مگر اس سے ایک تو پڑھے لکھے لوگ ملک سے باہر چلے گئے اور دوسرے پاکستان کے اپنے تعلیمی پروگرام مضبوط نہیں ہوسکے۔

قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے معاشیات میں ایم ایس سی اور ایم فل کرنے والی طالبہ طیبہ بتول جو امریکی ریاست ٹیکساس کے اے این ایم کالج سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں ،کہتی ہیں کہ پاکستان میں تعلیم اور حکومت دونوں شعبوں کو تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت ہے ۔خود کو فخر سے پاکستان کے سرکاری سکولوں کی پیداوار قرار دینے والی طیبہ بتول کہتی ہیں کہ پاکستان کے تعلیمی نظام کی اصلاح کے لئے تبدیلی باہر سے نہیں اندر سے لانی پڑے گی۔

فل برائٹ پروگرام کے تحت نیویارک سٹیٹ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے شہزاد رضا کہتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے دی جانے والی ایسی بیرونی امداد حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں جو پاکستان کو تعلیمی شعبے میں سہارا دے سکے۔ یہ کہتے ہیں کہ کیری لوگر بل کے حوالے سے ان کے بھی تحفظات ہیں لیکن یہ تعلیم کے شعبے میں پاکستان کی مدد کر نے والے کسی بھی بل کی حمایت کریں گے۔

XS
SM
MD
LG