الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ایک عہدیدار نے کہا ہے کہ حال ہی میں وضع کیے گئے انتخابی اصلاحات کے نئے قانون کے بعد ادارہ خاصا بااختیار ہو گیا ہے لیکن ان کے بقول اب بھی انھیں مختلف مشکلات کا سامنا ہے۔
پیر کو اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کمیشن کے سیکرٹری بابر یعقوب کا کہنا تھا کہ حال ہی میں ملنے والے اختیارات اور وسائل سے ادارہ مطمئن ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات کے قانون کی منظوری درست سمت میں اٹھایا جانے والا قدم ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارے کے طور پر فرائض سر انجام دے سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن کو درپیش مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب بھی ملک میں ایک کروڑ سے زائد خواتین کے ووٹ نہیں بنے جسے سیکرٹری الیکشن کمیشن نے "قومی ناکامی" قرار دیا۔
بابر یعقوب نے کہا کہ اس ضمن میں کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں کو بھی خط لکھے تھے لیکن دو کے علاوہ کسی جماعت نے اس کا جواب نہیں دیا۔
انتخابات کے آزادانہ اور منصفانہ انعقاد پر نظر رکھنے والی ایک موقر غیر سرکاری تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن (فافین) کے عہدیدار مدثر رضوی الیکشن کمیشن کے ان تحفظات سے متفق ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ووٹ ڈالنے کی اہل عمر تک پہنچنے والی اتنی بڑی تعداد کے ووٹ رجسٹر نہ ہونے پر فوری اور سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
"اس کی غالباً وجہ یہی ہے کہ ان کے پاس کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ نہیں ہے جو ضروری ہے ووٹ کے اندراج کے لیے۔ اب مردم شماری ہو چکی ہے اور ہمارے پاس درست اعدادوشمار 18 سال یا اس سے اوپر کے لوگوں کے آ جانے چاہئیں جو کہ یقیناً اس (ایک کروڑ) تعداد سے کہیں زیادہ ہوگی۔ اگر یہ تعداد صرف سوا کروڑ کو بھی سامنے رکھیں تو کوئی بھی انتخاب جس میں سوا کروڑ لوگ الیکشن میں ووٹ نہ دے پائیں تو اس کی ساکھ پر سوالیہ نشان یقیناً کھڑے ہوں گے۔"
مدثر رضوی کا کہنا تھا کہ جہاں شہریوں کے کوائف کے اندراج کے قومی ادارے 'نادرا' کو چاہیے کہ وہ تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے ایسے شہریوں کے قومی شناختی کارڈ بنائے جن کے پاس یہ نہیں ہیں اور اس پر فوری توجہ دے، وہیں سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ لوگوں کو متحرک کریں کہ وہ جلد از جلد شناختی کارڈز بنوائیں تا کہ ان کے ووٹ کا اندراج ہو سکے۔