رسائی کے لنکس

بڑھتا تجارتی خسارہ، کم ہوتی ترسیلاتِ زر، پاکستان کے پاس کیا راستے بچے ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

حکومتِ پاکستان کو سیاسی محاذ پر جہاں تحریکِ عدم اعتماد کا چیلنج درپیش ہے وہیں معاشی میدان میں اس کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے تین ارب ڈالر قرض کی آخری قسط جاری کرانا بھی کسی امتحان سے کم نہیں۔

آئی ایم ایف پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی ادائیگی کے لیے ریویو کر رہا ہےلیکن مالیاتی ادارے نے حکومتِ پاکستان کی جانب سے حال ہی میں اعلان کردہ ریلیف پیکج پر اعتراض کیا ہے۔ اس صورتِ حال میں حکومت عالمی ادارے کے حکام کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تاریخی تجارتی خسارہ، کم ہوتے زرِمبادلہ کے ذخائر اور پھر آئی ایم ایف کی جانب سے بظاہر مشکل شرائط نے حکومتِ پاکستان کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔

ماہر معاشیات اور سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں ملک کی معاشی صورتِ حال واقعتاً بہت پریشان کن ہے۔ ان کے بقول وزیر اعظم کی جانب سے اعلان کردہ ریلیف پیکج آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدے سے سراسر مختلف تھا اور اس معاملے پر آئی ایم ایف سے ریویو میں یقینًا اختلافات سامنے آئیں گے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے حال ہی میں پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 10 روپے اور بجلی کی فی یونٹ قیمت میں پانچ روپے کمی کا اعلان کیا تھا۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدے کے برخلاف صنعتوں کےلیے نئی ایمنسٹی اسکیم دے دی ہے جب کہ فریقین کے درمیان طے پایا تھا کہ کسی سیکٹر میں ٹیکس کی چھوٹ نہیں ملے گی۔ یوں کئی شرائط کی خلاف ورزی پر اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ آئی ایم ایف قرض پروگرام کومعطل کرسکتا ہے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے قرض کی آخری قسط کے لیےچند شرائط رکھی ہیں جس میں بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سمیت شرح سود بڑھانے اور وزیر اعظم کے کامیاب جوان پروگرام کے لیے قرضوں کی ادائیگی کم رکھنے کی تجاویز شامل ہیں۔ ماہرین کے بقول آئی ایم ایف کی شرائط کا مقصد حکومت کا مالی خسارہ کم کرنا اور بہتر معاشی نمو بتایا جاتا ہے۔

دوسری جانب وزارتِ خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم کہتے ہیں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان پروگرام ستمبر تک جاری رہے گا اوراسلام آباد اس پروگرام سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ان کے بقول آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل میں چھ ماہ رہ چکے ہیں، اس لیے فریقین کے پاس اس سے نکلنے کے آپشنز محدود ہیں۔

معاشی چیلنج سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے پاس کیا آپشنز ہیں؟

اگر آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو پاکستان کے پاس مزید کیا آپشنز ہیں جسے وہ استعمال کرکے اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرسکے گا؟ اس حوالے سے ایسے اشارے بھی مل رہے ہیں کہ پاکستان مشکل معاشی صورتِ حال سے نکلنے کے لیے دیگر آپشنز پر بھی غور کررہا ہے۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں مشکل صورتِ حال سے نکلنے کے لیےحکومت کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ درآمدی بل کنٹرول کرنے کے لیے سخت اقدامات کرے جیسا کہ سری لنکا نے گزشتہ دو سالوں میں گاڑیوں کی درآمد پر پابندی عائد کرکے کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بڑے تجارتی پارٹنر امریکہ اور یورپی یونین رہے ہیں اور یہ دونوں مل کر پاکستان کی برآمدات کا 45 فی صد رکھتے ہیں جب کہ چین کے ساتھ پاکستان کا فری ٹریڈ ایگریمنٹ موجود ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں توازن پاکستان کے برخلاف ہے۔

انہوں نے بتایا کہ چین سے پاکستان کو 18 سے 20 ارب ڈالرز کی درآمدات آتی ہیں اس کے مقابلے میں پاکستان سے چین کو محض ڈیڑھ ارب ارب ڈالرکی اشیاء جاتی ہیں۔

کیا پاکستان دیوالیہ ہو نے کے قریب ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:34 0:00

جامعہ کراچی میں سابق استاد اور بین الاقوامی تعلقات کی ماہر ڈاکٹر طلعت اے وزارت کہتی ہیں پاکستان کے پالیسی ساز ادارے سمجھتے ہیں کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ معاشی اور تجارتی شراکت داری کے بجائے بھارت سے ایسے تعلقات بنانے میں زیادہ دلچسپی دکھائی ہے۔ اس لیے پاکستان نے اب چین اور روس کی جانب دیکھنا شروع کردیا ہے۔

ان کے بقول چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبوں کو اہمیت دی جارہی ہے اور روس بھی پاکستان میں تیل کی پائپ لائن بچھانے میں دلچسپی لے رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر طلعت نے کہا کہ پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور دیگر عالمی اداروں کے قرضوں سے آزادی کے لیے اپنے دوست ممالک کی جانب دیکھنا ہوگا تاکہ اس کی معاشی پریشانیاں کسی حد تک کم ہوسکیں۔ ان کے بقول لگتا ہے کہ اب پاکستان کی حکومت بعض مشکل فیصلے کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ تاہم یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ چین کے ساتھ معاشی تعلقات استوار کرنے میں پاکستان کس طرح اپنے معاشی مفادات کا تحفظ کرپاتا ہے۔

وائس آف امریکہ نے وزارتِ خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم سے جب یہ پوچھا کہ پاکستان نے مشکل معاشی صورتِ حال میں چین سے کسی بیل آؤٹ پیکیج کی درخواست کی ہے؟ اس پر انہوں نے کہا ہک چین پاکستان کو قرض فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور مستقبل میں بھی یہ سلسلہ اسی طرح رہے گا۔

مزمل اسلم نے بتایا کہ ملک کا تجارتی خسارہ گزشتہ برس دسمبر میں سب سے زیادہ رہنے کے بعد اب اس میں کمی آنا شروع ہوچکی ہے جسے مزید کم کرنے کے لیے حکومت نے مانیٹری، انتظامی اور مالی پالیسی ایکشن لیے ہیں۔

اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟

رواں سال کے پہلے مہینے کے سامنے آنے والے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جنوری میں پاکستان کا تجارتی خسارہ 3.4 ارب ڈالرز ریکارڈ کیا گیا جب کہ فروری میں یہ خسارہ 3.095 ارب ڈالرز رہا۔ یعنی ملک کا مجموعی تجارتی خسارہ 31 ارب 95 کروڑ ڈالرز سے تجاوز کرچکا ہے۔ ماہرین اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ سال کے اختتام پر تجارتی خسارہ ریکارڈ 40 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہونے کا امکان ہے۔

اگر گزشتہ پانچ سال کا موازنہ کیا جائے تو پاکستان کا تجارتی خسارہ 2016 میں 19 ارب ڈالر، 2017 میں 25 ارب ڈالرز، 2018 میں 30 ارب ڈالرز، 2019 میں 27 ارب ڈالر، 2020 میں 21 ارب ڈالرز اور 2021 میں 28 ارب ڈالرز رہا تھا۔

دوسری جانب ترسیلات زر کو دیکھا جائے تو یہ جنوری میں 2 ارب 14 کروڑ ڈالرز جب کہ فروری میں 2 ارب 19 کروڑ ریکارڈ کیے گئے۔ لیکن اسٹیٹ بینک کا ریکارڈ بتاتا ہے ان دو مہینوں سے پہلے یہ رقم اوسطاً ڈھائی ارب ڈالرز سے زیادہ رہی تھی۔ یعنی دوسرے الفاظ میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے آنے والی رقوم میں کمی آتی نظر آرہی ہے۔

XS
SM
MD
LG