پاکستان کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے جمعرات کے روز منعقد ہونے والے اجلاس میں اقتصادی ماہرین نے یہ مشورہ دیا ہے کہ ملک کو آئی ایم ایف سے قرض لینے سے بچانے کے لئے مہنگی گاڑیوں، سمارٹ فونز اور غیر ملکی پنیر جیسی لگژری اشیا کی درآمد پر پابندی لگا دینی چاہئے۔
اقتصادی مشاورتی کونسل کے اجلاس میں اگرچہ کوئی بڑا فیصلہ نہیں کیا گیا مگر ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو کم کرنے کے لئے سخت فیصلے کرنے کی تجاویز دی گئیں۔
اقتصادی مشاورتی کونسل کا پہلا اجلاس جمعرات کے روز وزیر خزانہ اسد عمر کی صدارت میں شروع ہوا۔
پاکستان کی برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافے کی وجہ سے ملک کو شدید کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے اور زرمبادلہ کی کمی کے بحران کا سامنا ہے۔
انہی وجوحات سے اکثر اقتصادی ماہرین یہ توقع کر رہے ہیں کہ پاکستان کو جلد ہی آئی ایم ایف سے بیل آوٹ کی ضرورت پڑے گی۔ 1980 سے لے کر اب تک یہ ملک کا پندھرواں بیل آوٹ پیکچ ہوگا۔
وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے راہنما ملک کے آئی ایم ایف پر مسلسل انحصار کی پالیسی پر تنقید کر چکے ہیں اور اس بات کے خدشات بھی ظاہر کر چکے ہیں کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کی وجہ سے حکومت اپنے وعدوں کے مطابق عوام کو ریلیف نہیں پہنچا سکے گی۔
غیر ملکی ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے اقتصادی مشاورتی کونسل کے رکن پروفیسر اشفاق حسن خان کا کہنا تھا کہ جمعرات کے اجلاس میں کونسل میں غیر روایتی حل بھی پیش کئے گئے جن سے درآمدات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’میرے خیال میں کونسل میں ایک بھی ایسا ماہر نہیں تھا جس نے کہا ہو کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’ ہمیں اس وقت کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا اور ہاتھ پر ہاتھ رکھنا قبول نہیں ہے‘‘۔
اس رپورٹ کے لئے اسد عمر سے اقتصادی مشاورتی کونسل کے اجلاس کے سلسلے میں رابطہ نہ ہوسکا۔
اسد عمر نے سینیٹ میں دئے گئے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کو قرضوں کی واپسی کے لئے فوری طور پر 9 ارب ڈالر کی ضرورت ہے مگر آئی ایم ایف کے پاس جانے کا آپشن آخری ہو گا۔
اشفاق احمد خان نے رائٹرز کو بتایا کہ جو غیر روایتی حل پیش کئے گئے ان میں غیر ملکی پنیر، سیل فون، مہنگی گاڑیوں اور پھلوں کی درآمد پر پابندی بھی شامل ہے جس سے ’’چار سے پانچ ارب ڈالر بچائے جا سکتے ہیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوشش کی جائے تو پاکستان کی برآمدات میں دو ارب ڈالر تک اضافہ کیا جا سکتا ہے جس سے زرمبادلہ میں اضافہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ’’آپ دیکھ سکتے ہیں بازار میں بہت زیادہ غیر ملکی پنیر فروخت ہو رہا ہے، کیا ایسے میں جب ملک کو ڈالر کی کمی کے بحران کا سامنا ہے تو ایسی چیزوں کی ضرورت ہے؟‘‘
پچھلے برس سابقہ حکومت نے 240 سے زائد اشیا پر درآمداتی ڈیوٹی کی شرح 50 فیصد تک بڑھا دی تھی جن میں مہنگی کاریں اور پنیر جیسی اشیا بھی شامل تھیں۔ اس کے ساتھ ہی نئی درآمدات پر نئے ٹیکس لگائے گئے تھے مگر مکمل پابندی نہیں لگائی گئی تھی۔
اسد عمر نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ پاکستان چین اور سعودی عرب جیسے دوست ملکوں سے بھی مدد لینے کا سوچ رہا ہے تاکہ آئی ایم ایف اور غیر ملکی اداروں سے قرض لینے سے بچا جا سکے۔
پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ اس سال 30 جون کو 43 فیصد کے اضافے سے 18 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ پچھلے برس عالمی تیل کی قیمتوں میں اضافہ بھی اس کی ایک وجہ بنا کیونکہ پاکستان اپنی 80 فیصد تیل کی ضروریات درآمد کر کے پوری کرتا ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو کم کرنے کے لئے دسمبر سے اب تک سٹیٹ بینک نے چار مرتبہ کرنسی کی قیمت میں کمی کی ہے اور اس سال تین بار انٹرسٹ ریٹ میں اضافہ کیا جاچکا ہے۔