حالیہ دِنوں میں انٹرنیٹ کے ذریعےمشرقِ وسطیٰ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کےتناظر میں امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نےدنیا بھرمیں آزاد انہ انٹرنیٹ کے استعمال کے بارے میں اوباما انتظامیہ کےعزم کا اعادہ کیا ہے۔واشنگٹن میں اپنے ایک خطاب میں انہوں نے متنبہ کیا کہ جو ممالک انٹرنیٹ تک رسائی پر قدغن لگا نے کے خواہاں ہیں وہ عالمی معاشی فوائد سے ٕمحروم رہ جائیں گے۔
وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے تسلیم کیا کہ انٹرنیٹ کے فوائد کے باوجود اس کو نفرت پھیلانے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے جیسے کہ وکی لیکس کے معاملے میں ہوا جس نے چرائے ہوئے امریکی خفیہ دستاویزات شائع کیے۔ مگر وزیرخارجہ نے واضح کیا کہ امریکہ انٹرنیٹ کی آزادی کے حق میں ہے گو کہ باقی آزادیوں کی طرح اس سے بھی بے چینی جنم لیتی ہے مگر اس کے فوائد کہیں زیادہ ہیں۔
حالیہ دِنوں میں ٹوٹر اور فیس بک کے ذریعےمشرقِ وسطیٰ میں آنے والی تبدیلیوں کےتناظر میں امریکی وزیر خارجہ نے جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں خطاب کیا جہاں کچھ متاثرہ ممالک نے مختلف طریقوں سے انٹرنیٹ پر بندشیں لگانے کی کوشش کی۔ مگر ہلری کلنٹن کا کہنا تھا کہ جو لوگ مخالفین کی ویب سائٹس بند کر رہے ہیں اور بلاگرز پر پابندی لگا رہے ہیں وہ اپنا نقصان خود کر رہے ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ جن حکومتوں نے انٹرنیٹ کی آزادی میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں چاہے وہ ٹیکنیکل فلٹرز کی شکل میں ہوں یا سنسرشپ کی شکل میں۔ وہ آخر کار تنہا رہ جائیں گے۔ جو ملک انٹرنیٹ تک رسائی پر قدغن لگانا چاہتے ہیں انہیں بھی اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہوگا جیسا کہ آمر راہنماؤں کو کرنا پڑا جنہیں انٹرنیٹ کی آزادی اور اس پر پابندی کے نقصان میں سے ایک کو چننا پڑا۔دباؤ اور جبر کے ذریعے انٹرنیٹ پر پابندی سے آپ کا اپنا ہی نقصان ہوگا اور پانبدیوں کی وجہ سے آپ اس کے فوائد سے محروم رہ جائیں گے۔
ہلری کلنٹن نے کہا کہ قانون کی بالادستی کی وجہ سے سب کے لئے یکساں مواقع اور آزادی رائے نے جنم لیا ہے جو جدت کا سبب بنتی ہے۔ مگر جب ملک انٹرنیٹ کی آزادی پر پابندی لگاتے ہیں تو وہ اپنے لئے معاشی ترقی کے مواقع محدود کرتے ہیں۔امریکی وزیر خارجہ پچھلے چند ماہ سے اپنا زیادہ تر وقت انٹرنیٹ پر امریکی دستاویزات کے شائع ہونے کے بعد بیرونی ممالک کے ساتھ تعلقات بہترکرنے پر صرف کر رہی ہیں۔اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ سفارتکاری میں رازداری اور شفاف طرزاور شفافیت کے درمیان توازن برقرار رکھنا ضروری ہےاور صدر اوباما کی انتظامیہ اسی پر عمل پیرا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ میرے خیال میں آزادیوں کا پلڑا ہمیشہ ہی بھاری رہے گا تاہم ایک ہی طرف وزن ڈال دینے سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔ میں واضع کر دوں کہ میں یہ کہہ رہی ہوں کہ وکی لیکس کا واقعہ چوری سے شروع ہوا ایسے ہی جیسے کسی نے کاغذوں سےبھرا بریف کیس سمگل کیا ہو۔ ہم اس پر تنقید نہیں کر رہے کہ وکی لیکس نے انٹرنیٹ کا استعمال کیا۔ وکی لیکس کی وجہ سے ہمارے انٹرنیٹ کی آزادی کے عہد پر کوئی فرق نہیں پڑا۔
ہلری کلنٹن نے کہا کہ اوباما انتظامیہ اس سال مختلف حکومتوں کی جانب سے انٹرنیٹ پر لگائی جانے والی پابندیوں سے نمٹنے کے لئے کی جانے والی کوششوں پر ڈھائی کروڑ ڈالر خرچ کرے گی۔ کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کے پہلے سے موجود ٹیکنالوجی کو استعمال سے گریز سے بہت وقت ضائع ہو ا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ صارفین بیرونی ممالک میں موجود سرورز کو استعمال میں لاتے ہوئے باآسانی سرکاری پابندیوں سے بچ سکتے ہیں۔ تاہم امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ پابندیوں کا معاملہ ایک دم حل نہیں کیا جاسکتا۔
ہلری کلنٹن کا کہناتھا کہ ہم بہت سے طریقوں کی حمایت کرتے ہیں تاکہ اگر جابرانہ حکومتیں ایک ناکارہ بنا دیں تو دوسرے طریقے موجود ہوں۔ اور ہم ٹیکنالوجی کی جدت میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ آمرانہ قوتیں ہر وقت جبروتسلط کے طریقے ایجاد کرتی رہتی ہیں اور ہم ان سے آگے رہنا چاہتے ۔
ہلری کلنٹن نے کہا کہ محکمہٴ خارجہ انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر میں لوگوں کے ساتھ براہ راست بات چیت کو آسان بنانے کے لئے کام کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ محکمے نے گذشتہ ہفتے ٹُوِٹَر کے سماجی نیٹ ورکنگ سائٹ پر عربی اور فارسی میں اکاؤنٹ شروع کیے ہیں، اور بہت جلد چینی، ہندی اور روسی زبانوں میں بھی ٹوٹر اکاؤنٹ کام کرنا شروع کردیں گے۔