واشنگٹن —
امریکی کانگرس کے رکن آندرے کارسن کا کہنا ہے کے ڈرون حملوں کے حوالے سے سنجیدہ بحث کی ضرورت ہے۔
انڈیانا سے امریکی کانگرس کے رکن آندرے کارسن نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں بتایا کہ یہ ڈرون حملے کئی لحاظ سے فائدہ مند ہیں لیکن اس کے فائدے کو دیکھتے ہوئے یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ یہ حملے کئی شہریوں کی ہلاکت کا باعث بھی بن رہے ہیں۔
آندرے کارسن جو کہ امریکی کانگرس کے نو مسلم رکن ہیں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1984 میں ڈیموکریٹک پارٹی کے پلیٹ فارم سے کیا تھا۔
وائس آف امریکہ کے پروگرام کیفے ڈی سی میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 24 سال قبل ایک سیاہ فام امریکی شہری جیسی جیکسن نے صدارتی امیدوار بننے کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کا الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ لیکن آج صدر اوباما کی کامیابی اس خواب کی تعبیر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر اوباما کے امریکی صدر بننے سے اس سوچ نے دم توڑ دیا ہے کہ سیاہ فام کسی سے کم ہیں۔ انہوں نے دنیا کو دکھا دیا ہے امریکہ جیسے طاقتور ملک کی سربراہی کسی بھی رنگ کا شخص کر سکتا ہے۔
آندرے کارسن کا کہنا تھا صدر اوباما کے انتخاب سے امریکہ میں لاطینی ، خاتون یا مسلمان صدر کے انتخاب کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
اپنے مذہبی عقیدے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہیں اسلام کی ابتدائی تربیت ان کی دادی جولیا کارسن سے ملی جو 1997 سے 2007 تک کانگرس کی رکن رہیں۔ جولیا، کرسچن ہونے کے باوجود گھر میں قرآن رکھتی تھیں اور رومی کی مداح تھیں۔
آندرے نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کانگرس میں بیٹھ کر میرا کام تربیتی حیثیت کا ہے اور میں عوام کو یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ ایک مسلمان رکن کانگرس کس طرح لوگوں کی زندگی مین بہتری لا سکتا ہے۔
انڈیانا سے امریکی کانگرس کے رکن آندرے کارسن نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں بتایا کہ یہ ڈرون حملے کئی لحاظ سے فائدہ مند ہیں لیکن اس کے فائدے کو دیکھتے ہوئے یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ یہ حملے کئی شہریوں کی ہلاکت کا باعث بھی بن رہے ہیں۔
آندرے کارسن جو کہ امریکی کانگرس کے نو مسلم رکن ہیں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1984 میں ڈیموکریٹک پارٹی کے پلیٹ فارم سے کیا تھا۔
وائس آف امریکہ کے پروگرام کیفے ڈی سی میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 24 سال قبل ایک سیاہ فام امریکی شہری جیسی جیکسن نے صدارتی امیدوار بننے کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کا الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ لیکن آج صدر اوباما کی کامیابی اس خواب کی تعبیر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر اوباما کے امریکی صدر بننے سے اس سوچ نے دم توڑ دیا ہے کہ سیاہ فام کسی سے کم ہیں۔ انہوں نے دنیا کو دکھا دیا ہے امریکہ جیسے طاقتور ملک کی سربراہی کسی بھی رنگ کا شخص کر سکتا ہے۔
آندرے کارسن کا کہنا تھا صدر اوباما کے انتخاب سے امریکہ میں لاطینی ، خاتون یا مسلمان صدر کے انتخاب کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
اپنے مذہبی عقیدے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہیں اسلام کی ابتدائی تربیت ان کی دادی جولیا کارسن سے ملی جو 1997 سے 2007 تک کانگرس کی رکن رہیں۔ جولیا، کرسچن ہونے کے باوجود گھر میں قرآن رکھتی تھیں اور رومی کی مداح تھیں۔
آندرے نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کانگرس میں بیٹھ کر میرا کام تربیتی حیثیت کا ہے اور میں عوام کو یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ ایک مسلمان رکن کانگرس کس طرح لوگوں کی زندگی مین بہتری لا سکتا ہے۔