دنیا کے سب سے معتبر سمجھے جانے والے ایوارڈ 'نوبیل پیس پرائز' کے لیے دنیا بھر سے 343 نامزدگیاں کی گئی ہیں جس میں پاکستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم 'اخوت فاؤنڈیشن' کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب کا نام بھی شامل ہے جنہیں ان کی غربت کے خاتمے کے لیے کی گئیں کاوشوں کو سراہتے ہوئے نامزد کیا گیا ہے۔
نوبیل پیس پرائز کی کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ رواں برس کل 343 نامزگیاں کی گئیں جن میں سے 251 افراد اور 92 ادارے شامل ہیں۔
یاد رہے کہ ان افراد کو نامزد کرنے والے اور نامزدگیوں کے ناموں کی تفصیل پچاس برس تک ظاہر نہیں کی جاتی۔ لیکن بعض اوقات جو افراد نامزد کرتے ہیں وہ نامزدگیوں کے نام ظاہر کر دیتے ہیں۔
نوبیل ایوارڈ میں سائنس کے کئی شعبوں کے علاوہ دنیا بھر میں انسانیت کے لیے کام کرنے والے افراد کو یہ ایوارڈ دیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ نوبیل پرائز جیتنے والوں کے ناموں کا اعلان ہر سال معروف سائنس دان الفریڈ نوبیل کی برسی، یعنی دس دسمبر کے روز کیا جاتا ہے۔
اب تک دو پاکستانی شہری یہ اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر عبدالسلام کو فزکس کے شعبے میں 1979 میں نوبیل انعام سے نوازا گیا جب کہ 2016 میں ملالہ یوسفزئی کو تعلیم کے لیے طالبان کے سامنے آواز اٹھانے پر یہ اعزاز دیا گیا۔
یاد رہے کہ ایوارڈ کا اعلان ناروے کی نوبیل کمیٹی کرتی ہے جب کہ نامزد کوئی بھی شخص کر سکتا ہے اگر وہ بعض شرائط پر پورا اترتا ہے۔ ان میں ریاستوں کے قومی اسمبلیوں کے رکن اور کابینہ کے ارکان، بین الاقوامی کورٹ آف جسٹس کے ارکان، ایسے لوگ جنہیں نوبیل انعام مل چکا ہو، جس ادارے کو نوبیل انعام ملا ہو ان کے بورڈ ممبران، ناروے کی نوبیل انعام کمیٹی کے حالیہ اور سابقہ ممبران شامل ہیں۔
پاکستان کی جانب سے نامزد ڈاکٹر امجد نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے طب کی تعلیم حاصل کی اور 1985 میں پاکستان کی سول سروس جوائن کی۔ انہوں نے 2003 میں 'اخوت فاؤنڈیشن' کی بنیاد رکھی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر امجد نے بتایا کہ 'اخوت' کی بنیاد انہوں نے 'مواخات مدینہ' کے فلسفلے پر رکھی ہے۔یعنی پیغمبر اسلام کے مدنی دور میں انہوں نے انصار و مہاجرین کے درمیان بھائی چارا پیدا کیا تھا جس کے نتیجے میں ان دونوں طبقوں کے درمیان گہرا رشتہ ا خوت استوار ہو گیا تھا۔
ڈاکٹر امجد کا کہنا تھا کہ جب معاشرے میں طبقاتی فرق بڑھ جائے تو جن افراد کے پاس وسائل ہیں وہ دوسرے شہریوں کی مدد کریں، اگر امیر و غریب کے درمیان ایک خوبصورت رشتہ قائم ہو جائے تو ریاست کی مدد کے بغیر بھی ایک اچھا معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔
ان کے بقول انہیں غربت کے خاتمے کے لیے بنگلہ دیش کے 'گرامین بینک' کا متعارف کردہ مائیکروفنانس کا نظام پسند آیا مگر دنیا بھر میں اس نظام میں سود کی شرح بہت زیادہ ہے۔تاہم انہوں نے قرضِ حسنہ کے پروگرام کو منظم طور پر اپناتے ہوئے 'اخوت' کی بنیاد رکھی۔
یاد رہے کہ 'گرامین بینک' بنگلہ دیش میں غریب افراد کو چھوٹے قرضے دینے کے لیے قائم کیا گیا تھا تاکہ وہ غربت سے نکل سکیں۔اس بینک کی بنیاد 1976 میں محمد یونس نامی شخص نے رکھی تھی جنہیں سال 2006 میں امن کے نوبیل ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
ڈاکٹر امجد کہتے ہیں ان کا فلسفہ ہے کہ لینے والا ہاتھ بھی دینے والا بن سکے اور آج وہ پچاس لاکھ سے زائد افراد کو قرضہ دے چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جو کام دس ہزار روپے سے شروع ہوا تھا وہ آج 162 ارب روپوں کے قرضوں تک پہنچ چکا ہے۔ ان کے بقول چالیس لاکھ سے زائد خاندان ان کے قرضِ حسنہ پروگرام سے استفادہ کر چکے ہیں اور یہ ہدف دو کروڑ افراد تک ہے۔
ڈاکٹر امجد کے مطابق 'اخوت' ملک کے 400 شہروں تک پھیل چکا ہے اور اس کے 836 دفاتر اور چار ہزار سے زائد ملازمین ہیں۔
ان کے بقول، بالآخر ہدف یہی ہے کہ پچاس فی صد پاکستانی باقی کے پچاس فی صد افراد کی مدد کریں۔"
ڈاکٹر امجد ثاقب گزشتہ برس ایشیا کے نوبیل انعام کہلائے جانے والے 'ریمون میگساسا' ایوارڈ سمیت دنیا بھر کے کئی معزز ایوارڈز جیت چکے ہیں۔
انہوں نےحکومت کو مشورہ دیا کہ لوگوں کی معاشی حالت سدھارنے کے لیے حکومت کو تین مائیکرو اکنامکس پالیسیاں اختیار کرنی چاہئیں، لوگوں کی صلاحیتیں بڑھائی جائیں جن میں آئی ٹی کا شعبہ سرِفہرست ہے، دوسرا انہیں مالی وسائل مہیا کرے اور تیسرا تعلیم مہیا کرنے کا بندوبست کرے۔