رسائی کے لنکس

احسن اقبال کی حالت خطرے سے باہر، حملے کا مقدمہ درج


احسن اقبال (فائل فوٹو)
احسن اقبال (فائل فوٹو)

وزیرِ داخلہ کے بیٹے احمد اقبال نے سروسز اسپتال میں موجود صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے ان کے والد کی حالت اطمینان بخش ہے تاہم ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق انہیں ابھی چند دن اسپتال میں رکھا جائے گا۔

پاکستان کے وفاقی وزیرِ داخلہ احسن اقبال کو لاہور کے سروسز اسپتال میں آپریشن کے بعد انہیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کر دیا گیا ہے اور ڈاکٹروں نے ان کی حالت تسلی بخش قرار دی ہے۔

سروسز اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ پروفیسر ڈاکٹر مہر امیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ گولی احسن اقبال کی کہنی کی ہڈی کو چھوتے ہوئے پیٹ کے نچلے حصے میں لگی تھی جس کی سرجری مکمل کر لی گئی ہے۔

ان کے بقول، "احسن اقبال کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ تمام ڈاکٹروں نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ گولی کا خول احسن اقبال کے پیٹ سے نہ نکالا جائے۔ گولی کے خول کا ان کی صحت پر کوئی برا اثر نہیں پڑے گا۔"

وزیرِ داخلہ کے بیٹے احمد اقبال نے سروسز اسپتال میں موجود صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے ان کے والد کی حالت اطمینان بخش ہے تاہم ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق انہیں ابھی چند دن اسپتال میں رکھا جائے گا۔

احسن اقبال پر اتوار کو پنجاب کے وسطی ضلعے نارووال کے علاقے کنجرور میں عابد حسین نامی شخص نے اس وقت قاتلانہ حملہ کیا تھا جب وہ ایک جلسے میں شرکت کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔

ملزم کو پولیس نے موقع پر ہی گرفتار کر لیا تھا۔ احسن اقبال کو فوری طور پر نارووال کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں انہیں ابتدائی طبی امداد کے بعد بذریعہ ہیلی کاپٹر لاہور کے سروسز اسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔

لاہور کے سروسز اسپتال کی ایمرجنسی کے باہر ایک ایمبولینس موجود ہے جہاں احسن اقبال کو طبی امداد کے لیے لایا گیا تھا۔
لاہور کے سروسز اسپتال کی ایمرجنسی کے باہر ایک ایمبولینس موجود ہے جہاں احسن اقبال کو طبی امداد کے لیے لایا گیا تھا۔

احسن اقبال پر حملہ کرنے والے ملزم عابد حیسن کے خلاف نارووال کے پولیس تھانہ غریب شاہ میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے جس میں اقدامِ قتل اور دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

نارووال پولیس نے ملزم کو پیر کو گوجرانوالہ کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیش کیا جہاں عدالت نے ملزم کو 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کےحوالے کر دیا۔

دریں اثنا احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات کے لیے پنجاب حکومت نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی ہے۔

پانچ رکنی جے آئی ٹی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ پنجاب کے سربراہ رائے طاہر ہوں گے جبکہ اس میں آئی ایس آئی اور انٹیلی جنس بیورو کے نمائندے بھی شامل ہیں۔

اطلاعات کے مطابق ملزم نے اپنے ابتدائی بیان میں پولیس کو بتایا ہے کہ اس نے انتخابی امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی میں ختمِ نبوت سے متعلق شقیں ختم کرنے کے ردِ عمل میں وفاقی وزیر کو نشانہ بنایا۔

ابتدائی اطلاعات میں یہ کہا گیا تھا کہ ملزم کا تعلق مذہبی جماعت 'تحریکِ لبیک یارسول اللہ' سے ہے۔ لیکن تحریکِ لبیک نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے کی عدالتی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

تحریکِ لبیک کے امیر علامہ خادم حسین رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ انتخابات سے قبل وزیرِ داخلہ پر حملہ قابلِ غور ہے جس کی عدالتی تحقیقات کرائی جانی چاہئیں۔

بیان میں خادم حسین رضوی نے کہا ہے کہ تحریک ِ لبیک ایک پرامن سیاسی مذہبی جماعت ہے جو سیاسی جدوجہد اور انتخابات کے ذریعے ملک میں شریعت کا نفاذ چاہتی ہے اور کسی بھی قسم کی بدامنی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔

انہوں نے کہا کہ تحریکِ لبیک کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں جنہیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

احسن اقبال لاہور کے سروسز اسپتال میں زیرِ علاج ہیں جہاں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
احسن اقبال لاہور کے سروسز اسپتال میں زیرِ علاج ہیں جہاں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

امریکی صدر کی نائب معاون اور نیشنل سکیورٹی کونسل کی سینئر ڈائریکٹر برائے جنوبی و وسطی ایشیا لیزا کرٹس نے کہا ہے کہ وہ احسن اقبال کی جلد اور مکمل صحت یابی کے لیے دعاگو ہیں۔

اپنے ایک ٹوئٹ میں لیزا کرٹس نے کہا کہ پاکستان کی قوم کو آزاد اور شفاف انتخابات کے لیے احسن اقبال کی ضرورت ہے۔ انہوں نے وزیرِ داخلہ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جمہوری مستقبل کے مقصد کے حصول کے لیے ثابت قدم رہیں۔

ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت مختلف شخصیات نے احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کی سخت مذمت کی ہے۔

وفاقی وزيرِ ريلوے اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفيق نے کہا ہے کہ گالي سے شروع ہونے والي سياست گولي پر پہنچ چکي ہے۔

ایک بیان میں سعد رفیق نے کہا ہے کہ سستي شہرت کے ليے چند افراد نے ختمِ نبوت بل ميں ترميم کا شوشہ چھوڑا تھا۔ ان کے بقول ہم دنیا کو بتاتے ہیں کہ پاکستان ایک پر امن ملک ہے لیکن اس طرح کے واقعات دنیا کو پیغام دیتے ہیں کہ انتہا پسندی پاکستان میں پھیل رہی ہے۔

پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ احسن اقبال پر فائرنگ کا واقعہ انتہائی قابلِ افسوس ہے۔ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے خصوصی انتظامات کرنا ہونگے۔

قمر زمان کائرہ کے بقول، "حکومت ساری سیکورٹی میاں صاحب کو ہی نہ دے بلکہ اہم سیاسی لوگوں کی حفاظت کا بھی معقول انتظام کرے۔ اس واقعے سے پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے"۔

ڈپٹی کمشنر نارووال نے وفاقی وزیرِ داخلہ پر حملے کی ابتدائی رپورٹ چیف سیکرٹری پنجاب کو ارسال کر دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملزم عابد حیسن نے ہجوم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وفاقی وزیرِ داخلہ پر تیس بور کے پستول سے فائرنگ کی۔

XS
SM
MD
LG