رسائی کے لنکس

بھارت میں انتخابات: ایگزٹ پول کے نتائج کتنے قابلِ اعتبار ہوتے ہیں؟


  • بھارت میں ایک طبقے کا خیال ہے کہ چار جون کو جب ووٹوں کی گنتی ہو گی تو نتائج بھی تقریباً ایسے ہی آئیں گے۔
  • دوسرے طبقے کا خیال ہے کہ تیسری بار مسلسل مودی حکومت کے قیام کے امکانات تو ہیں، مگر اُنہیں زیادہ نشستیں نہیں ملیں گی۔
  • بعض تجزیہ کار ایسے بھی ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایگزٹ پول کے نتائج کے بالکل برعکس انتخابی نتائج برآمد ہوں گے۔
  • ووٹوں کی گنتی چار جون کو ہو گی اور توقع ہے کہ اسی روز شام تک صورتِ حال واضح ہو جائے گی۔
  • کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ووٹ دے کر جو شخص پولنگ بوتھ سے باہر آ رہا ہے وہ صحیح بات ہی بتائے۔

یکم جون کی شام کو لوک سبھا انتخابات کے آخری مرحلے کی پولنگ مکمل ہونے کے بعد بھارتی نشریاتی اداروں اور سروے ایجنسیوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے ایگزٹ پول کے نتائج زیر بحث ہیں۔ ایک طبقہ ان نتائج کو درست سمجھ رہا ہے جب کہ دوسرا طبقہ غلط مان رہا ہے۔

پہلے طبقے کا خیال ہے کہ چار جون کو جب ووٹوں کی گنتی ہو گی تو نتائج بھی تقریباً ایسے ہی آئیں گے۔ نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مسلسل تیسری بار حکومت قائم ہو گی۔ کیوں کہ ایگزٹ پول ہوا کا رخ بتاتے ہیں۔

دوسرے طبقے کا خیال ہے کہ تیسری بار مسلسل مودی حکومت کے قیام کے امکانات تو ہیں۔ لیکن بی جے پی کی قیادت والے حکمراں محاذ ’نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس‘ (این ڈی اے) کو اتنی نشستیں نہیں ملیں گی جتنی ملنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

کیا نتائج ایگزٹ پولز کے برعکس ہو سکتے ہیں؟

تاہم بعض تجزیہ کار ایسے بھی ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایگزٹ پول کے نتائج کے بالکل برعکس انتخابی نتائج برآمد ہوں گے۔

یاد رہے کہ بیش تر ایگزٹ پولز میں این ڈی اے کو 350 سے زائد نشستیں ملنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جب کہ بعض نے 400 سے زائد نشستوں کی قیاس آرائی کی ہے۔

ان کے مطابق اپوزیشن کے اتحاد ’انڈین نیشنل ڈیولپنگ انکلیوسیو الائنس‘ (انڈیا) کو مجموعی طور پر 200 تک نشستیں مل سکتی ہیں۔

دس ایگزٹ پولز کا کہنا ہے کہ 'این ڈی اے' 350 نشستیں جیتے گا۔ لیکن وہ 400 کی گنتی تک نہیں پہنچ سکے گا۔ جب کہ تین ایگزٹ پولز میں 400 سے زائد سیٹوں کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ صرف ایک میڈیا ادارے ’دینک بھاسکر‘ نے این ڈی اے کو 200 سے کچھ زائد سیٹوں کی پیش گوئی کی ہے۔

پی جے پی کی ممکنہ جیت کی تیاریاں

ووٹوں کی گنتی چار جون کو ہو گی اور توقع ہے کہ اسی روز شام تک صورتِ حال واضح ہو جائے گی۔ بی جے پی اپنی ممکنہ جیت کا جشن منانے کی تیاری کر رہی ہے۔

اپوزیشن کے اتحاد ’انڈیا‘ نے ایگزٹ پول کے نتائج کو مسترد کر دیا ہے۔ اس کے مطابق ایسا حکومت کے اشارے پر ذہن سازی کے لیے کیا گیا ہے تاکہ اس کے بقول اگر گنتی میں دھاندلی ہو تو لوگوں کو حیرت نہ ہو۔ اپوزیشن نے اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کو ایک خط لکھ کر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے کا کہنا ہے کہ انڈیا بلاک کو کم از کم 295 سیٹیں ملیں گی۔ اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن اس سے کم نہیں ہوں گی۔ ان کے مطابق ایگزٹ پول حکومت کا سروے ہے اور ہم جو کہہ رہے ہیں وہ عوام کے سروے کا نتیجہ ہے۔

'ہمیں انتظار کرنا چاہیے'

سینئر کانگریس رہنما سونیا گاندھی کا کہنا ہے کہ ہمیں انتظار کرنا چاہیے۔ انھوں نے ’انڈیا‘ کے حق میں نتائج کی توقع ظاہر کی۔ جب کہ راہل گاندھی نے بھی 295 کی پیش گوئی کی ہے۔

ایک سرکردہ سروے ایجنسی ’سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹی‘ (سی ایس ڈی ایس) سے وابستہ ہلال احمد کہتے ہیں کہ ایگزٹ پول کے نتائج کی بنیاد پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ لیکن اسے نظرانداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ تو پہلے سے ہی واضح تھا کہ بی جے پی کی قیادت میں تیسری بار 'این ڈی اے' کی حکومت قائم ہو گی۔ اب ایگزٹ پول کے نتائج بھی اسی کے حق میں جانے کا اشارہ کر رہے ہیں۔

اُمیدواروں کا انتخاب

بی جے پی کے تیسری بار برسر اقتدار آنے کی ایک بڑی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ اس نے پیشہ ورانہ انداز میں الیکشن لڑا ہے۔ اس کو 2019 میں انتخابات میں 303 نشستیں ملیں تھیں۔ اس بار اس نے 167 کو ہی دوبارہ امیدوار بنایا۔ اس نے صرف انہی کو ٹکٹ دیا جو جیتنے کی پوزیشن میں تھے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ امیدواروں کے انتخاب میں بہت محتاط رہی ہے۔

بعض دیگر تجزیہ کار بھی اس کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بی جے پی نے بڑی تعداد میں سابقہ امیدواروں کو بدل دیا۔ جب کہ کانگریس اور دوسری اپوزیشن پارٹیوں نے اتنی احتیاط نہیں برتی۔ انہوں نے بعض ایسے لوگوں کو بھی امیدوار بنا دیا جن کے پہلے سے ہی جیتنے کے امکانات نہیں تھے۔

ہلال احمد کہتے ہیں کہ سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی نے دو بہت کامیاب یاترائیں نکالی تھیں۔ وہ چاہتے تو یاتراؤں کے دوران مقامی سطح پر کانگریس قیادت منظم کر سکتے تھے۔ لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ ان کے خیال میں کانگریس اور ’انڈیا‘ اتحاد میں شامل کئی جماعتیں پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے عاری نظر آئیں۔

دو سرویز میں شامل رہنے والے سینئر تجزیہ کار اجے کمار بھی یقین کے ساتھ یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ایگزٹ پول میں جتنی سیٹیں دکھائی جا رہی ہیں اتنی آ ہی جائیں گی۔ لیکن ان کے مطابق اس سے عوامی رجحان کا پتا چلتا ہے۔

دہلی میں ماڈل اور پنک پولنگ بوتھ
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:05 0:00

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ جو ادارے ایگزٹ پول یا رائے شماری کرتے ہیں وہ 50 ہزار، ایک لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ افراد کی رائے کی بنیاد پر نتیجہ نکالتے ہیں۔ اتنے بڑے ملک میں جس میں تقریباً 97 کروڑ رائے دہندگان ہوں، اتنے کم لوگوں کی رائے کی بنیاد پر کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا۔

'ضروری نہیں کہ ووٹر درست بات بتائے'

کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ووٹ دے کر جو شخص پولنگ بوتھ سے باہر آ رہا ہے وہ صحیح بات ہی بتائے۔ ممکن ہے کہ وہ سروے کرنے والوں کو گمراہ کرنے کے لیے غلط بتا دے۔ اجے کمار کا کہنا ہے کہ اس نے ووٹ تو دے دیا۔ اسے گمراہ کرنے سے کیا ملے گا۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جمہوریت میں حکومت کو بدلتے رہنا چاہیے۔ اگر ایک ہی پارٹی زیادہ دنوں تک حکومت کرتی رہے تو اس کے آمریت کی طرف گامزن ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ایک سینئر تجزیہ کار پروفیسر ابھے دوبے کا کہنا ہے کہ جو کچھ ایگزٹ پول میں دکھایا جا رہا ہے اگر انتخابی نتائج بھی اسی طرح کے آئے تو پھر یہ کہنا پڑے گا کہ بھارت کے جمہوری نظام پر ایک پارٹی کی گرفت قائم ہو گئی۔

ایک یو ٹیوب چینل پر ہونے والے مباحثے میں شرکت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اپوزیشن کا کام حکومت اور عوام کے درمیان پل یا ثالث بننے کا ہوتا ہے۔ لیکن اگر اپوزیشن کمزور ہو تو وہ اپنا فریضہ ادا نہیں کر سکتی۔

بھارت میں ماضی میں ہونے والے ایگزٹ پولز

جہاں تک ایگزٹ پول کے درست یا غیر درست ہونے کی بات ہے تو قبل ازیں متعدد ایگزٹ پول کافی حد تک صحیح پائے گئے تاہم کچھ غلط بھی ثابت ہوئے ہیں۔ خیال رہے کہ بھارت میں دوسرے پارلیمانی انتخابات یعنی 1957 سے سروے کا آغاز ہوا ہے۔

پہلے ہر مرحلے کی پولنگ کے بعد سروے نتائج ظاہر کر دیے جاتے تھے۔ لیکن بعد ازاں الیکشن کمیشن نے یہ قانون بنا دیا کہ پولنگ کے عمل کے مکمل طور پر ختم ہونے کے بعد ہی سروے یا ایگزٹ پول کے نتائج ظاہر کیے جا سکتے ہیں۔

مبصرین کے مطابق اگر سیمپلنگ میں گڑبڑ ہو، ووٹر صحیح بات نہ بتائے یا ووٹر اس قسم کے عمل میں شامل ہونے کے لیے تیار نہ ہو اور اگر اعداد و شمار کے جمع کرنے میں گڑبڑ ہو تو ایگزٹ پول کے نتائج صحیح نہیں ہو سکتے اور انتخابی نتائج بھی مختلف آ سکتے ہیں۔

بھارتی انتخابات: کیا جاننا ضروری ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:26 0:00

اگر ہم ماضی قریب کے سرویز پر نظر ڈالیں تو کچھ بالکل درست ثابت ہوئے ہیں، کچھ درستگی کے قریب رہے ہیں اور کچھ بالکل غلط ثابت ہوئے ہیں۔

سال 2019 کے انتخابات میں بی جے پی کے 306 سیٹیں ملنے کی پیش گوئی کی گئی تھی اور اسے 303 ملیں۔ اپوزیشن اتحاد یو پی اے کو 120 سیٹیں ملنے کی قیاس آرائی تھی اور اسے 93 ملی تھیں۔ اسی طرح 2014 میں بھی بی جے پی کی جیت کا امکان ظاہر کیا گیا تھا جو درست ثابت ہوا۔

لیکن 2004 میں ایکزٹ پول بالکل غلط ثابت ہوئے تھے۔ اس وقت وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی اور وزیرَ داخلہ ایل کے آڈوانی کی حکومت کی جانب سے ’شائننگ انڈیا‘ کا نعرہ دیا گیا تھا اور بی جے پی اور تمام ایگزٹ پولز نے بھی این ڈی اے کی جیت کی پیش گوئی کی تھی جو غلط ثابت ہوئی تھی۔

ایگزٹ پولز کا کہنا تھا کہ این ڈی اے کو 240 سے 275 تک نشستیں ملیں گی۔ لیکن اسے 216 ملی تھیں اور ڈاکٹر من موہن سنگھ کی قیادت میں یو پی اے کی حکومت قائم ہوئی تھی۔

لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2017 میں اتر پردیش اسمبلی، 2015 میں بہار اسمبلی، 2015 میں دہلی اسمبلی اور 2023 میں چھتیس گڑھ اسمبلی انتخابات میں ایگزٹ پولز کی پیش گوئیاں بڑی حد تک درست ثابت ہوئی تھیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG