پاکستان میں گزشتہ ہفتے جاری کئے گئے ایک صدارتی آرڈیننس کے تحت پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کو تحلیل کر کے پاکستان میڈیکل کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
پاکستان میں پی ایم ڈی سی طب کی تعلیم فراہم کرنے کے لحاظ سے سپریم باڈی تصور کی جاتی تھی جو اس بارے میں اہم فیصلے کرتی،اور تعلیمی اداروں کو فیکلیٹی اور طلبہ کے بارے میں گائیڈلائن فراہم کرنے کے ساتھ میڈیکل کے شعبے سے وابستہ افراد اور ہسپتالوں کو لائسنس فراہم کرنے اور معیار برقرار رکھنے کی بھی ذمہ دار تھی۔
اپوزیشن کی شدید مخالفت کے باعث، حکومت پاکستان اس سال میڈیکل ڈینٹل کونسل آرڈیننس 2019 سینیٹ سے منظور کرانے میں ناکام رہی تھی، جس کے دو ماہ بعد ہی یہ نیا آرڈیننس جاری کر دیا گیا ہے۔
آرڈیننس جاری کرنے کا کیا مقصد ہے؟
حکومت کا کہنا ہے کہ اس آرڈیننس جاری کرنے کا مقصد ملک میں طب کی تعلیم کو جدید طرز پر استوار کرنا اور اسے بہتر بنانا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان کے معاون برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا ہے کہ یہ قوانین ملک میں صحت کے تعلیمی اداروں کے معیار، میڈیکل کے شعبے سے وابستہ افراد کی لائسنسگ اور امتحانات کے طریقہ کار کو بین الاقوامی معیار کے مطابق کرنے میں مدد فراہم کریں گے۔
ڈاکٹر ظفر مرزا کے مطابق، 1962 میں جب پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا قانون آیا تھا تو ملک میں چند ایک ہی میڈیکل کالجز تھے۔ لیکن، آج ان کی تعداد 168 تک جا پہنچی ہے، جن میں سے زیادہ تر پرائیویٹ کالجز ہیں۔ ان پرائیویٹ کالجوں کی تعداد گزشتہ 15 سال میں بہت بڑھی ہے۔
ظفر مرزا کے مطابق، پی ایم ڈی سی ان تبدیلیوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ نہیں کر پائی۔ پی ایم ڈی سی میں تبدیلیوں کے بارے میں بہت سی کوششیں کی گئی جو کامیاب نہ ہو سکیں، جبکہ ادارے میں نااہلی اور کرپشن کی شکایات بھی بڑھتی چلی جا رہی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ سرکاری اداروں کی اصلاح کی کوشش کے تحت ایک نئے ادارے کے لئے قانون سازی کی ضرورت محسوس کی گئی تاکہ اس ادارے کو موجودہ وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔
ڈاکٹر ظفر مرزا کے مطابق، آرڈیننس جاری کرنے کا مقصد طلبا کا تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچانا تھا، کیونکہ پی ایم ڈی سی آرڈیننس 2019 اپنی مدت پوری کر چکا تھا اور اب وہ نافذ العمل نہیں تھا۔ تاہم، ان کے مطابق، اسے بل کی صورت میں جلد پارلیمنٹ میں بھی پیش کیا جائے گا۔
آرڈیننس میں کیا نیا ہے؟
آرڈیننس کے تحت اس کمیشن کے تین حصے ہوں گے جس میں سے ایک جُزو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ہوگا، دوسرا حصہ نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل اکیڈمک بورڈ ہوگا، جبکہ تیسرا حصہ نیشنل میڈیکل اتھارٹی پر مبنی ہوگا۔
ان تینوں کا کام میڈیکل کے شعبے میں پالیسی سازی، امتحانات کی تعداد طے کرنے، میڈیکل کالجز کی لائسنسنگ، میڈیکل اداروں کی تعلیم کے معیارات اور امتحانات کے طریقہ کار سمیت اس سے متعلق دیگر امور کو طے کرنا ہوگا۔
اس آرڈیننس کے تحت انٹرمیڈیٹ کے بعد میڈیکل کالجز میں داخلے کے لئے میڈیکل اینڈ ڈینٹل انٹرینس ٹیسٹ پورے ملک میں ایک ہی روز منعقد کیا جائے گا، جب کہ ایم بی بی ایس یا بی ڈی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد طلباء کو نیشنل لائسسنگ ایگزامینیشن (این ایل ای) پاس کرنا ہوگا۔ یہ ٹیسٹ میڈیکل کالج میں ہاؤس جاب مکمل کرنے کے بعد پریکٹس میں جانے سے قبل پاس کرنا ضروری ہوگا۔
اس ٹیسٹ کا مقصد پاس آؤٹ ہونے والے طلباء کی صلاحیت، ٹریننگ اور ان کا علم پرکھنا ہے۔
یہ ٹیسٹ سال میں دو بار ہوگا اور مارچ 2020 کے بعد سے تمام ڈاکٹرز کو یہ ٹیسٹ پاس کرنا ضروری ہوگا۔ اس سے اس بات کا بھی انداز ہ لگایا جاسکے گا کہ طب کے شعبے میں جو تعلیم دی جا رہی ہے وہ واقعتاً بین الاقوامی معیار کے مطابق ہے یا نہیں۔
نئے آرڈیننس کے تحت پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل ایسوسی ایشن کی جگہ پاکستان میڈیکل کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کے 9 ممبران ہوں گےجو کہ حکومت کی جانب سے نامزد ہوں گے۔ ان ممبران کا تعلق شعبہ طب اور شعبہ دندان سازی کے علاوہ سول سوسائٹی اور مسلح افواج سے ہوگا۔آرڈیننس میں ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ان ڈاکٹروں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جاسکے گی جو سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کے خلاف احتجاج کرتے پائے گئے۔
اپوزیشن جماعتیں اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن آرڈیننس کی مخالفت کیوں کر رہی ہیں؟
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس آرڈیننس کی کھل کر مخالفت کی جا رہی ہے۔ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی اسے فراڈ سے تعبیر کر رہی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل انفارمیشن سیکریٹری ڈاکٹر نفیسہ شاہ کی جانب سےجاری کردہ بیان کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف قومی اداروں کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ان کے مطابق، نئے آرڈیننس سے طب کا شعبہ عدم توازن کا شکار ہوگا۔ پارٹی عہدیدار کی جانب سے اسے ملک میں صحت کے نظام پر حملہ قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ میں اس بل کی بھرپور مخالفت کی جائے گی۔
دوسری جانب، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نےبھی آرڈیننس کی بھرپور مخالفت کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد کے مطابق، پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے کام کو بہتر بنانے کی ضرورت تھی۔ لیکن، اس پورے ادارے کو ہی بند کر دیا گیا جو کہ ان کے خیال میں ایک سازش ہے۔ اس کمیشن میں لوگوں کو منتخب کرنے کے بجائے تمام کو نامزد کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ انکی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ایک پیشہ وارانہ باڈی میں سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے غیر متعلقہ افراد کو رکھنے سے کیا کام ہوگا؟
ڈاکٹر سجاد کا کہنا ہے کہ اس آرڈیننس سے میڈیکل کی تعلیم کا بیڑا غرق ہوگا، کیونکہ آرڈیننس سے بنیادی فائدہ شعبہ طب کی پرائیویٹ سطح پر تعلیم فراہم کرنے والے اداروں کو ہوگا، جہاں انہیں بے حد خودمختاری دی گئی ہے۔ فیکلٹی کی تعیناتی اور ان کی تعداد کے لئےکمیشن کے بجائے جن جامعات سے میڈیکل کالجز کا الحاق ہوگا وہی ذمہ دار ہوں گے۔ اسی طرح فیسوں کی وصولی میں بھی جامعہ کا کردار زیادہ رکھا گیا۔ ان کے خیال میں جامعات کا کنٹرول بڑھانے سے اب میڈیکل کالجز یا ٹیچنگ اداروں کی بہتر طور پر انسپیکشن اور مانیٹرنگ نہیں کی جا سکے گی۔
ڈاکٹر قیصر سجاد کے مطابق، اگر کسی نجی یونیورسٹی نے کوئی میڈیکل کالج کھولا ہے تو اس جامعہ ہی کو اس میڈیکل کالج کی نگرانی سونپ دی گئی ہے۔ ایسے میں مفادات کے ٹکراؤ میں کیا ممکن ہے کہ کالج میں کوئی بہتری لانے میں جامعہ کردار ادا کر پائے گی۔
پی ایم اے کےجنرل سیکریٹری کا کہنا تھا کہ حکومت کا مقصد واقعی جائز اور اداروں کی اصلاح ہی تھا تو ایک جمہوری حکومت کو صدارتی آرڈیننس کا سہارا لینے کی کیا ضرورت تھی؟
بقول ان کے، اس کی تیاری میں اسٹیک ہولڈرز سےمشاورت کی گئی اور نہ ہی اس بارے میں دیگر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا گیا۔ اس اہم معاملے پر پارلیمنٹ میں بحث کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
ان کے مطابق، اگر یہ سب کچھ غیر اہم ہے تو کیوں نہ پارلیمنٹ کو تالا لگا دیا جائے اور پھر جو مرضی احکامات منظور کرالیے جائیں۔