رسائی کے لنکس

پاکستان: معذور قیدی کی سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کی اپیل


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے وزیر اعظم نواز شریف کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ عبدالباسط کی پھانسی پر عملدرآمد روکا جائے۔

انسانی حقوق کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں نے سزائے موت پانے والے ایک معذور قیدی عبدالباسط کے ڈیتھ وارنٹ ایک بار پھر جاری کیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

جب کہ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے وزیر اعظم نواز شریف کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ عبدالباسط کی پھانسی پر عملدرآمد روکا جائے۔

اطلاعات کے مطابق عبدالباسط کو 25 نومبر یعنی بدھ کو پھانسی دی جائے گی۔

اس سے قبل بھی دو مرتبہ عبدالباسط کے ڈیتھ وارنٹ جاری کیے گئے تھے مگر اُن کی پھانسی پر عملدرآمد اس لیے روکنا پڑا کیونکہ وہ تختہ دار پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں تھے۔ پاکستانی جیل کے ضوابط کے مطابق پھانسی کے لیے قیدی کا تختہ دار پر کھڑا ہونا لازمی ہے۔

اطلاعات کے مطابق عبدالباسط کو جب 2008ء میں گرفتار کیا گیا تو وہ بالکل تندرست تھا مگر جیل میں اُن کی صحت تیزی سے خراب ہونے لگی۔ اس دوران 2010ء میں عبدالباسط کو تپ دق کا مرض لاحق ہوا، جس کی بر وقت تشخیص نا ہونے اور مناسب علاج نہ ملنے کے باعث ان کی صحت اس قدر بگڑ گئی کہ اُن کی ریڑھ کی ہڈی کو نقصان پہنچا اور وہ زندگی بھر کے لیے معذور ہو گیا۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ملک میں سزائے موت پر عملدرآمد پر پابندی ہٹائے جانے کے بعد اب تک 299 قیدیوں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ تنظیم نے ایک بیان میں کہا کہ مسلسل پھانسیاں ناصرف پاکستان کی انسانی حقوق کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ ایسے کوئی شواہد بھی نہیں ملے کہ پھانسیوں سے ملک میں دہشت گردی میں کمی واقع ہوئی ہے۔

پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی اور قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے رکن رانا محمد افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سزائے موت دیے جانے سے متعلق پاکستان پر تنقید درست نہیں۔

پاکستان نے گزشتہ سال دسمبر میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد سزائے موت پر چھ سال سے عائد عارضی پابندی ختم کر دی تھی۔ اس حملے میں لگ بھگ 150 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن کی اکثریت بچوں پر مشتمل تھی۔

اس حملے کے بعد ملک بھر میں شدید صدمے اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔

سزائے موت پر پابندی ہٹانے جانے کے بعد پہلے دہشت گردی کے مقدمات میں سزا پانے والے قیدیوں کی سزاؤں پر عملدرآمد شروع کیا گیا مگر بعد میں قتل سے متعلق دیگر مقدمات میں بھی سزا پانے والے مجرموں کی سزاؤں پر بھی عملدرآمد شروع کر دیا گیا تھا۔

XS
SM
MD
LG