پاکستان کے تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے آئندہ مالی سال کے بجٹ اور ترقیاتی پروگرام کے معاملے پر اختلاف کی وجہ سے منگل کو ہونے والے قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس سے بائیکاٹ کر دیا۔
یہ اجلاس وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں اسلام آباد میں ہوا۔
سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی، خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور بلوچستا ن کے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس نے اجلاس سے بائیکاٹ کے بعد اسلام آباد میں ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کی ۔
انہوں نے وفاق کے مجوزہ ترقیاتی منصوبوں میں ان کی صوبائی حکومتوں کی طرف سے تجویز کردہ اسکیموں کو شامل نا کرنے کا الزام وفاقی حکومت پر عائد کیا۔
اس موقع پر خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے کہا" جو سفارشات ہم نے دی ہیں ان میں سے ایک بھی تجویز نہیں مانی گئی ہے اس میں انہوں (وفاقی حکومت) نے اپنی مرضی کی اسکیموں کو شامل کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا حق ہے کہ جو منصوبے ہم شامل کرنا چاہیں ہم کر سکتے ہیں۔"
پرویز خٹک نے مزید کہا "اس پر ہم نے یہ سوال اٹھایا کہ اگر آپ کو یہ حق ہے تو پھر قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس بلانے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔"
صوبہ سند ھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ موجودہ حکومت کی مدت آئندہ ماہ ختم ہو جائے گی۔ اس لیے اسے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
" ہم نے اجلاس میں اپنا یہ نقطہ نظر رکھا کہ ہمارے خیال میں موجودہ وفاقی حکومت کو، جس کی مدت مئی میں ختم ہو جائے گی، اسے یہ حق نہیں ہے کہ آئندہ مالی سال جو یکم جولائی کو شروع ہوتا ہے اس کے لیے پی ایس ڈی پی (پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام ) کے منصوبے بنائے۔ وہ صرف جاری منصوبوں کے لیے فنڈز مختص کر سکتی ہے۔"
تاہم حکومت میں شامل عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ آئینی طور پر موجودہ حکومت کے لیے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں اور پاکستان کے وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ و اقتصادی امور مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ حکومت مالی سال 2018-2019ء کے لیے ایک متوازن بجٹ پیش کرنے کے لیے تیار ہے۔