دنیا بھر میں زچگی کے عمل کے دوران ایک بڑی تعداد میں خواتین اور بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت ' ڈبلیو ایچ او' سے وابستہ ڈاکٹر فلاویہ بستریو کا کہنا ہے کہ یہ یقین کرنا بہت ہی مشکل ہے کہ 2015ء میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 60 لاکھ بچے اور تین لاکھ سے زائد خواتین ولادت کی پیچیدگیوں کی وجہ سے موت کا شکار ہو گئے۔
بستریو اب اس پروگرام کی سربراہ ہیں جس کا مقصد ان اموات کی تعداد میں آئندہ پانچ سالوں کے دوران 50 فیصد تک کمی کرنا ہے اور ماؤں اور بچوں کی ان اموات کو 2030ء تک ختم کرنا ہے جن سے بچاؤ ممکن ہے۔
ان ملکوں میں بنگلادیش، بھارت، آئیوری کوسٹ، اتھوپیا، گھانا، ملاوی، نائیجیریا اور یوگنڈا شامل ہیں۔
اس مقصد کا حصول "ماؤں، نوزائیدہ بچوں، بچوں کی صحت کی دیکھ بھال کے بہتر نیٹ ورک" کا نیا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔
اس پروگرام کے لیے اقوام کے ادارہ برائے اطفال یعنی یونیسیف اور عالمی ادارہ صحت معاونت فراہم کریں گے۔
بستریو نے جنیوا سے سکائپ پر وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ اس پروگرام کے تحت ہر ملک میں شراکت داروں اور اہم فریقوں کی مدد سے اہداف مقرر کیے جائیں گے۔
جب کہ اُن ممالک میں صحت عامہ کے ماہرین کو تربیت بھی فراہم کی جائے گی تاکہ وہ ہنگامی صورت حال سے نمٹ سکیں۔
وہ ممالک جہاں خواتین اور بچوں کی اموات کی شرح زیادہ ہے، اُن کے بارے میں بستریو نے کہا کہ انھیں اپنی صحت کی سہولتوں کے مراکز کو جدید بنانا ہو گا۔
اس کے ساتھ ساتھ ان ممالک کو اپنے وسائل سے صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات کو بہتر کرنا ان کی تعمیر کرنا اور اپنے وسائل سے وہاں بجلی فراہم کرنا بھی ضروری ہو گا۔
بستریو نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ"اگر ایک خاتون ایک ایسے مرکز میں اپنے بچے کو جنم دیتی ہے جہاں تربیت یافتہ عملہ موجود نہیں ہے یا جہاں صحت کی اچھی دیکھ بھال کی سہولت موجود نہیں ہے تو اس صورت میں اموات میں کمی واقع نہیں ہو سکتی ہے۔"
دنیا کے کئی علاقوں میں روایتی طور پر خواتین گھروں میں ہی بچوں کو جنم دیتی ہیں، اس وقت ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ کس طرح ان خواتین کو صاف اور صحت کی سہولتوں سے لیس مراکز میں پہنچایا جائے۔ بستریو نے کہا کہ ان میں سے بعض خواتین کو یہ تشویش ہوتی ہے کہ وہ (ان مراکز میں) کہیں بیماریوں کا شکار نا ہو جائیں۔
اس پروگرام کا حتمی مقصد بچوں اور خواتین کی ان اموات کو ختم کرنا ہے جن سے بچاؤ ممکن ہے۔