امریکہ کی 14 ریاستوں میں منگل کو ڈیموکریٹک پارٹی کے پرائمری انتخابات کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ کسی ایک دن سب سے زیادہ پرائمری انتخابات کی وجہ سے مارچ کے پہلے منگل کو سپر ٹیوزڈے کہا جاتا ہے۔ پیٹر بوٹیجج اور منی سوٹا کی سینیٹر ایمی کلوبوچر کے دوڑ سے دست بردار ہونے کے بعد مقابلے میں صرف پانچ امیدوار رہ گئے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سینیٹر ایمی کلوبوچر نے جو بائیڈن کے حق میں مقابلے سے نکلنے کا اعلان کیا ہے۔
مقابلے میں باقی رہ جانے والوں میں سابق نائب صدر اور ڈیلاویئر کے سینیٹر جو بائیڈن، ورمونٹ کے سینیٹر برنی سینڈرز، میساچوسیٹس کی سینیٹر الزبتھ ویرن، ہوائی کی رکن کانگریس تلسی گیبرڈ اور نیویارک کے سابق میئر مائیکل بلوم برگ شامل ہیں۔
منگل کو جن ریاستوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے، ان میں الاباما، ٹیکساس، شمالی کیرولائنا، کیلی فورنیا، ٹینیسی، ورجینیا، آرکنساس، اوکلاہوما، کولوراڈو، میساچوسیٹس، یوٹاہ، منی سوٹا، ورمونٹ اور مین شامل ہیں۔
ہر ریاست میں ووٹوں کی بنیاد پر ڈیلیگیٹس منتخب ہوتے ہیں۔ کیلی فورنیا میں 415، ٹیکساس میں 225، شمالی کیرولائنا میں 110، ورجینیا میں 99 اور میساچوسیٹس میں 91 ڈیلیگیٹس داؤ پر لگیں گے۔ مجموعی طور پر 1357 ڈیلیگیٹس کا فیصلہ ہو گا۔
اس سے پہلے آئیووا، نیوہمپشائر، نیواڈا اور جنوبی کیرولائنا میں پرائمری انتخابات ہو چکے ہیں جن میں برنی سینڈرز مجموعی طور پر 58 ڈیلیگیٹس جیت کر سرفہرست ہیں۔ جوبائنڈن کے 50، الزبتھ ویرن کے 8 اور ایمی کلوبوچر کے7 ڈیلیگیٹس ہیں۔ سپر ٹیوزڈے کو کوئی ایک امیدوار زیادہ برتری حاصل کر لے تو باقی ریاستوں کے پرائمری انتخابات میں اسے کم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بیشتر ریاستوں میں برنی سینڈرز کی قابل لحاظ حمایت موجود ہے لیکن بہت سے سیاہ فام ووٹرز ان کے ساتھ نہیں۔ جنوبی کیرولائنا کے پرائمری انتخاب میں سیاہ فام ووٹرز نے جوبائیڈن کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے اس انتخاب میں انھیں کامیابی حاصل ہوئی۔ بعض سیاسی ماہرین نے رائے دی ہے کہ پیٹر بوٹیجج کی دستبرداری کا فائدہ بھی جوبائیڈن کو ہو گا۔
ارب پتی مائیکل بلوم برگ نے اپنی مہم بہت دیر سے شروع کی لیکن انھوں نے اشتہارات پر بہت بڑی رقم خرچ کی ہے اور سپر ٹیوز ڈے کو پتا چلے گا کہ اس کا فائدہ ہو گا یا نہیں۔ وہ واحد امیدوار ہیں جو کانگریس کے رکن نہیں ہیں۔
سپرٹیوزڈے کے نتائج آنے کے بعد امکان ہے کہ کم ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار اپنی مہم روک دیں گے کیونکہ اس شام ووٹروں کے موڈ کا اندازہ ہو جاتا ہے اورحتمی مقابلے کے لیے مضبوط امیدوار ہی آگے بڑھنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔