رسائی کے لنکس

پاکستان میں سزائے موت پر بحث: 'کسی کی جان لینا ریاست کا کام نہیں ہے'


پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں، سول سوسائٹی، دانش وروں اور بعض ماہرینِ تعلیم نے سزائے موت کے قانون پر قومی بحث کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان میں کئی برسوں سے دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح سزائے موت ختم کرنے کے حق میں آوازیں بلند کی جا رہیں، تاہم اتفاقِ رائے نہ ہونے پر تاحال اس معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

سزائے موت کے قانون کا دوبارہ جائزہ لینے کا مطالبہ انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) کے زیرِ اہتمام 10 اکتوبر کو سزائے موت کے خلاف عالمی دن کی مناسبت سے اسلام آباد میں ہونے والے سیمینار میں کیا گیا۔

ایچ آر سی پی نے سزائے موت کے خلاف اپنے مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب دنیا کے اکثر ممالک میں سزائے موت کو ختم کیا جارہا ہے، پاکستان میں اس سزا پر عمل درآمد میں اضافہ ہورہا ہے۔

ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ سزائے موت پانے والے شخص کو گرفتاری سے تختہ دار تک ایک انتہائی مشکل صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حراست کے دوران مبینہ تشدد،سزائے موت کی کال کوٹھری میں بدترین حالات اور پھر پھانسی کے ذریعے سزائے موت کے اطلاق تک نہ صرف ملزم بلکہ اس کے اہلِ خانہ کو بھی درناک صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پاکستان میں اس طرح کے کمزورفوج داری انصاف کے نظام میں کسی بے گناہ کو ناقابل واپسی سزا دینے کا بڑا اور حقیقی خطرہ موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ سزائے موت پر آٹھ سال گزارنے والے دو بھائیوں کو بالآخر سپریم کورٹ نے اکتوبر 2016 میں صرف یہ جاننے کے بعد بری کر دیا کہ انہیں ایک سال پہلے ہی پھانسی دی جا چکی ہے، اس صورتِ حال سے ملک کے فوج داری نظام انصاف میں سنگین خامیوں کا پردہ فاش ہو گیا ہے۔


اجلاس میں سزائے موت کے مقدمات میں بنیادی حقوق کے تحفظ پر بھی زور دیا گیا جس میں مناسب دفاع کا حق، تشدد سے تحفظ، نابالغوں اور ذہنی طور پر معذور افراد کو پھانسی سے بچانا، سزائے موت پانے والے تارکین وطن پاکستانی کارکنوں کو قانونی خدمات فراہم کرنا اور رحم کی درخواستوں کے لیے طریقۂ کار کو آسان بنانا شامل ہے۔

اجلاس میں موجود شرکا کا کہنا تھا کہ پاکستان نے تشدد کے خلاف عالمی کنونشن پر دستخط اور توثیق کر دی ہے، لیکن اس کے باوجود انسدادِ تشدد قانون نہیں بنایا گیا۔

بعض مبصرین کا کہنا تھا کہ اگر سزائے موت کی سزا کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا تو ایسے جرائم کی تعداد کو کم کیا جاسکتا ہے جن میں فی الحال موت کی سزا دی جا رہی ہے۔

'قانون ختم کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے'

سینئر قانون دان اسلم خاکی ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ سزائے موت کے قانون کو ختم کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ موت کی سزا ریاست کے قانون کے مطابق دی جارہی ہے۔اس پر بالکل بحث کی جاسکتی ہے کہ یہ سزا دی جائے یا نہیں۔اسلام میں اس پر بات کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ماضی میں بااثر افراد کی طرف سے قصاص اور دیت کے قانون کے مبینہ غلط استعمال پر اعتراض کیا جاتا تھا، اس وجہ سے بعض بااثر ملزمان سزا سے بچ جاتے تھے۔ لیکن حال ہی میں نور مقدم کیس کے علاوہ دیگر ہائی پروفائل کیسز میں ملزمان کو سزائیں دی گئی ہیں۔

اسلم خاکی کا کہنا تھا کہ جرائم کے ردِعمل میں زیادہ تر جرائم ہوتے ہیں، اس پر بات کی جاسکتی ہے، اسلام منع نہیں کرتا کہ سزائے موت دینے یا نہ دینے پر بات نہ کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ طاقت ور جرم کرنے کے باوجود سزا سے بچ نکلتا ہے۔ اُن کے بقول نور مقدم کیس میں جس بہیمانہ انداز میں نور کو قتل کیا گیا اور شدید عوامی دباؤ آیا اور ملزم طاقت اور پیسہ ہونے کے باوجود سزا سے نہیں بچ سکا۔

اسلم خاکی کہتے ہیں کہ بہت سے کیسز میں سزائیں نہ دیے جانے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جرم رونما نہیں ہوا، اسی طرح بہت مرتبہ بعض کیسز میں سزائیں غلط بھی دی جاتی ہیں لیکن اس میں اب یہ کہنا کہ اس جرم کی سزا کو ہی ختم کردیا جائے، مناسب نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ نورمقدم کیس میں جس انداز میں قتل کیا گیا اس پر عوامی دباؤ کے باعث سزا دی گئی اور ملزم ہر طرح سے طاقت اور پیسے کے باوجود نہیں بچ سکا۔اس لیے یہ دلیل خاصی کمزور ہے کہ اس میں طاقت ور بچ جاتا ہے اور کمزور پکڑا جاتا ہے۔ اگر یہ دلیل تسلیم کرلی جائے تو پھر چوری یا کسی بھی جرم کی سزا ختم کردی جائے۔

کورٹ ڈائری: 'جب سزائے موت سنائی گئی تو لگا زندگی ختم ہوگئی'
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:53 0:00

'بڑے مجرم اکثر سزا سے بچ جاتے ہیں'

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ سزائے موت کے بجائے جرم پر سزا کو یقینی بنانا زیادہ ضروری ہے۔ کسی کی جان لینا ریاست کا کام نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں زہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ 1947 میں صرف دو جرائم پر سزائے موت دی جا سکتی تھی، جن کی تعداد اب بڑھ کر 33 ہو گئی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس سزا سے بڑے مجرم بچ جاتے ہیں اور ان کے کیسز عدالتوں میں آتے ہی نہیں۔

زہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ پاکستان میں زیادہ تر لوگوں کی رائے پھانسی کے حق میں ہے، یہاں جرائم اس قدر زیادہ ہیں کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ موت کی سزا مسائل کا حل ہے۔ اس بارے میں لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے کہ موت کی سزا نہیں بلکہ جو بھی سزا ملے اس پر عمل درآمد ضروری ہے۔

زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ پاکستان میں موت کی سزا کے معاملہ پر فوجی حکومت نے جب غیراعلانیہ پابندی لگائی گئی تو کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا تھا۔ 2014 میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ کے بعد ان سزاؤں پر عمل درآمد بحال کیا گیا جس کے بعد ان پر لگاتار عمل درآمد ہو رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG