امریکہ کے وزیر دفاع ایش کارٹر نے جمعرات کو اپنے اتحادی شراکت داروں کو یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے دوران بھی داعش کے جنگجوؤں کے خلاف امریکہ کا کردار اہم رہے گا۔
کارٹر نے لندن میں ہونے والے ایک اجلاس کے دوران 14 ملکوں کے وزرائے دفاع کو بتایا کہ "میں یقینی دہانی نہیں کروا سکتا۔ میں اگلی انتظامیہ کی طرف سے بات نہیں کر سکتا۔ تاہم (داعش کے خلاف) اتحادی مہم کے مستقبل کے بارے میں پر اعتماد ہے۔"
انہوں نے کہا کہ "ہمارے اتحاد کی مضبوطی ان نتائج کی بنیاد پر ہے جو میں دیکھ رہا ہوں، میں پر اعتماد ہوں کہ امریکہ اور اس کی فوج اس مہم میں ایک اہم شراکت دار کے طور پر آپ کے ساتھ رہیں گے۔"
کارٹر نے اتحادی منصوبہ بندی سے متعلق اس اجلاس کا افتتاح کیا جو اوباما انتظامیہ کے دور کا آخری اجلاس ہو گا، تاہم اس اجلاس کا زیادہ تر موضوع بحث یورپی یونین کے شراکت داروں کے ٹرمپ انتظامیہ کی داعش سے نمٹنے کی حکمت عملی کے بارے میں اٹھانے جانے والے سوالات تھے۔
اوباما انتظامیہ کے دور میں عراق میں تعینات امریکی فورس کی تعداد پانچ ہزار ہے جو کہ ان خصوصی آپریشن کی چھوٹی ٹیموں پر مشتمل ہے جو مقامی فورسز کو مشاورت بھی فراہم کرتی ہیں۔
ٹرمپ نے اسے داعش سے نمٹنے کے لیے ایک ناکافی اور سست رو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ سے داعش کے جنگجوؤں نے عراق اور شام میں اپنی جڑیں مضبوط کر لیں۔
نو منتخب صدر کی طرف سے نامزد وزیر دفاع ریٹائرڈ جنرل جیمز میتس نے داعش سے نمٹنے کی اوباما انتظامیہ کی حکمت عملی کو "ناکافی" قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ صدر کو مسائل سے بھرپور صورت حال ورثے میں ملے گی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ٹرمپ کی حکمت عملی مختلف ہو گی تاہم اس کی تفصیلات ابھی سامنا آنا باقی ہیں۔
اس حوالے سے یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا ٹرمپ انتظامیہ شامی باغیوں کی حمایت جاری رکھے گی یا روس سے تعاون کرے گی جو شامی صدر بشار الاسد کی حمایت کرتا ہے۔