نائیجیریا میں تقریباً دو سال سے زائد عرصے تک شدت پسند گروپ بوکو حرام کی تحویل میں رہنے کے بعد رہائی پانے والی لڑکیوں کو حکام نے کرسمس کا تہوار اپنے اہل خانہ کے ساتھ آبائی علاقے میں منانے سے روک دیا۔
یہ بات ان لڑکیوں کے رشتے داروں اور وکلا نے منگل کو بتائی۔
یہ خبر سامنے آنے کے بعد حکام کی طرف سے ان 21 لڑکیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے بارے میں سوالات نے جنم لیا ہے۔
یہ لڑکیاں اکتوبر میں سوئٹزرلینڈ کی حکومت اور انٹرنیشنل کمیٹی فار ریڈ کراس کی مصالحت سے رہا ہوئی تھیں۔
لگ بھگ 300 لڑکیاں چیبوک میں اپریل 2014ء میں اسکول میں امتحان دے رہی تھیں کہ بوکو حرام کے شدت پسندوں نے انھیں اغوا کر لیا تھا۔ درجنوں لڑکیاں تو جلد ہی ان کے قبضے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی تھیں لیکن لگ بھگ 219 گروپ کی تحویل میں ہی تھیں۔
اکتوبر میں بازیاب کروائی گئی لڑکیوں کو نائیجیریا کے دارالحکومت ابوجا میں ایک بحالی مرکز میں رکھا گیا تھا۔ ان بچیوں نے کرسمس کا تہوار اپنے گھر میں منانے کا مطالبہ کیا تھا۔ حکومت نے پہلے ان سے کہا تھا کہ وہ یہ تہوار اپنے علاقے میں ہی منائیں گی۔
تاہم انسانی حقوق کے ایک وکیل امینوئل اوجیب کے مطابق ان لڑکیوں کو کرسمس کے موقع پر گھروں کی بجائے چیبوک میں ایک قانون ساز کے گھر منتقل کر دیا گیا۔
کرسمس کا تہوار گرز گیا لیکن ان لڑکیوں کو اپنے والدین سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ لیکن بعد ازاں ریاست بورنو کے گورنر قاسم شتیما میڈیا کے نمائندوں اور ان بچیوں کے والدین کے ساتھ آئے اور ان کی ملاقات ان کے گھر والوں سے کروائی۔
اوجیب نے امریکی خبر رساں ایجنسی "ایسوسی ایٹڈ پریس" کو بتایا کہ ان بچیوں سے کرسمس کی خوشیاں چھین لی گئیں۔
ایک لڑکی کے والدین نے بھی ’اے پی‘ کو بتایا کہ یہ لڑکیاں کرسمس سروس اپنے چرچ میں ادا کرنا چاہتی تھیں لیکن انھیں ان کے تحفظ کے پیش نظر قانون ساز کے گھر پر ہی رکنے کا کہا گیا۔