’وال اسٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ قومی قرضے کی حد کو بڑھانے کے سمجھوتے کی سینیٹ میں منظوری کے بعد صدر براک اوباما نے فوراً اُس پر دستخط کردیے اور اب مزید بحث ایک خصوصی کمیٹی کو منتقل کی گئی ہے جو خسارے کی رقم میں 15کھرب ڈالر کی کمی لائے گی۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس بارہ رکنی کمیٹی میں جِس میں دونوں پارٹیوں کے چھ چھ رکن ہوں گے ، اِس پرگرم بحث ہوگی کہ یہ مطالبہ کس حد تک ٹیکس بڑھانے اور پروگراموں میں کٹوتیوں کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ بِل پر دستخط کرنے کے بعد مسٹر اوباما نے اپنی تقریر میں لوگوں کی توجہ معیشت پر مرکوز کرانے کی کوشش کی۔ ایسےمیں جب اُنھیں 15ماہ کے اندر ایک اور صدارتی انتخابات کا سامنا ہے اور ملک میں بے روزگاری کی شرح بہت اونچی ہے،
مسٹر اوباما نے کانگریس سے کہا ہے کہ وہ بیروزگاری کے بیمے اور ملازمین کے لیے ’پے رول کریڈٹ‘ میں توسیع کرے۔ اُنھوں نے آزادانہ تجارتی سمجھوتے اور بنیادی ڈھانچے کے لیے فنڈز مہیا کرنے والے ایک بینک کے قیام کا مطالبہ کیا۔
’وال اسٹریٹ جرنل‘ کا کہنا ہے کہ بارہ رکنی کمیٹی کا اعلان صدر اوباما اور اسپیکر جان بینر کے درمیان کئی ہفتوں کے مذاکرات کی ناکامی کے بعد کیا گیا تھا جسے اب 23نومبر تک اپنی سفارشات پیش کرنی ہیں۔کانگریس میں اِس پر 23دسمبر تک رائے شماری ہونی ہے۔
کانگریس اِس میں ترمیم کرنے کی مجاز نہیں ہوگی اور سینیٹ میں اِس کی منظوری سادہ اکثریت سے ہوگی تاکہ Filibsterسے بچا جائے۔ اگر کمیٹی تعطل کا شکار ہوتی ہے یا کانگریس اس کی سفارشات نہیں مانتی تو 12کھرب ڈالرکی مجموعی کٹوتیاں خود بخود نافذ کردی جائیں گی۔
اخبار ’ہیوسٹن کرانیکل‘ میں معروف ماہر معاشیات اور نوبیل انعام یافتہ پال کرگ من کا یہ مضمون چھپا ہے جِس میں وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی قومی قرضے کی حد بڑھانے کے سمجھوتے کی بدولت ملک تباہی سے بچ جائے گا وہ غلطی پر ہیں۔
اُن کے خیال میں یہ سمجھوتہ نہ صرف صدر اوباما اور اُن کی پارٹی کے لیے بُرا ہوگا بلکہ اِس کی وجہ سے امریکہ کا طویل عرصے سے جاری خسارے کا مسئلہ اور زیادہ بگڑ جائے گا، بہتر نہیں ہوگا۔
مضمون نگار کے بقول، امریکی معیشت اِس وقت سخت کسادبازاری کا شکار ہے اور اگلے سال بھی یہی حال رہے گا اور شاید اِس سے اگلے سال بھی۔
پال کرگ من کہتے ہیں کہ اِن حالات میں سرکاری اخراجات میں کٹوتی کرنا بہت غلط ہوگا، کیونکہ اِس کی وجہ سے معیشت میں مزید کساد بازاری آئے گی۔
اُنھیں اِس دعوے سے شدید اختلاف ہے کہ بجٹ پر سنگین قدم اُٹھانے کے نتیجے میں کاروباری اداروں اور صارفین کی یقین دہانی ہوجائے گی اور وہ زیادہ خرچ کرنے پر تیار ہوں گے۔
مصنف کے خیال میں ایسا ہوتا نہیں اور اِس حقیقت کی تاریخ کے ریکارڈ سے تصدیق ہوجاتی ہے۔
کیا صدر کے پاس اِس معاہدے کی جگہ اور کوئی قدم اُٹھانے کی گنجائش تھی؟ اِس پر مصنف کا کہنا ہے کہ بالکل تھی، اور وہ قرض کی حد کا مسئلہ دسمبر کے مہینے میں اُٹھا سکتے تھے۔ لیکن، اُنھوں نے ایسا نہیں کیا اور جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیوں نہیں تو اُن کا کہنا تھا کہ اُنھیں یقین تھا کہ ریپبلیکن ذمہ داری سے کام لیں گے۔
پال کرگ من کہتے ہیں کہ اِس سمجھوتے کے نتیجے میں صرف ڈیموکریٹ ہی گھاٹے میں نہیں رہیں گے۔ اُن کا خیال ہے کہ ری پبلیکن نے اس وقت جو کامیابی حاصل کی ہے اُس نے پورے نظامِ حکومت کو مشکوک کردیا ہے، کیونکہ اگر قوم کی اقتصادی سلامتی خطرے میں ڈالی جاتی ہے تو پھر امریکی جمہوریت کا کاروبار کیونکر چل سکتا ہے۔
’بوسٹن گلوب‘نے ترکی کی موجودہ سیاسی صورتِ حال پر ایک اداریے میں کہا ہے کہ کئی عشروں تک ملک کی مسلح افواج کو سیا سیات میں حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار تھا لیکن اب عوام کے ووٹوں سے کامیاب ہونے والی سویلین حکومت نے صورتِ حال پر اپنا
سکہ جما لیا ہے اور ابھی تک فوج نے اپنی اِس معزولی کی حیثیت کو قبول کر لیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اگرچہ ترکی کی حکومت کی اسلامی چاشنی کے پیش نظر مغربی طاقتوں میں تذبذب پایا جاتا ہے، لیکن سویلین کنٹرول کو ایک صحتمند پیش رفت کی نگاہ سے دیکھنا چاہیئے۔
سال بھر سے وزیر اعظم رجب طیب اردغان فوجی عہدے داروں کو اِس الزام پر گرفتار یا برطرف کرتے آئے ہیں کہ وہ حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کر رہے تھے۔
1960ء کی دہائی سے ترکی میں چار فوجی بغاوتیں ہوئی ہیں جِن کا مقصد حکومت کی سیکولر نوعیت کا تحفظ کرنا تھا۔
اب اردغان نے جو قدم اُٹھائے ہیں اُن کے نتیجے میں فوج سے بہت سے افسروں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ لیکن ایسی کوئی علامات نہیں ہیں کہ اردغان کھلے پن کی پالیسی سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ ایک آزمودہ کار جمہوریت میں یہ بات لازمی ہے کہ حکومت پر سویلین کنٹرول مقدم ہو۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: