ڈالفن کی پاکستان میں پائی جانے والی نایاب نسل بلائنڈ ڈالفن معدومی کے خطرے سے دوچار چلی آرہی ہے جس کے تحفظ کے لیے کوششیں تو کئی سالوں سے جاری ہیں لیکن اس کے باجود جنگلی حیات کے تحفظ سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب بھی کوششوں کو مربوط بنانے کی ضرورت ہے۔
تازہ پانی میں پائی جانے والی اس مچھلی کی بقا سے متعلق تشویش ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب رواں ہفتے ہی سکھر کے قریب بلائنڈ ڈالفن کی ایک مادہ مچھلی مردہ حالت میں ملی۔
جنگلی حیات کے متعلقہ حکام کے مطابق بظاہر یہ ڈالفن مچھیروں کے جال میں پھنس گئی تھی جسے مناسب وقت میں وہاں سے بچایا نہیں گیا۔
جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے سرگرم ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر پاکستان کی ڈائریکٹر ڈاکٹر عظمیٰ خان کہتی ہیں کہ ان کے ادارے نے متعلقہ محکموں کے ساتھ مل کر اس نایاب نسل کی مچھلی کی بقا کے لیے کوششیں کیں جن کے حوصلہ افز نتائج برآمد ہوئے لیکن ان کے بقول اب بھی صرف پاکستان میں پائی جانے والی اس نسل کے تحفظ کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔
"مسئلہ یہ ہے کہ ماہی گیر پوری پوری رات اپنے جال پانی میں ڈال کر چلے جاتے ہیں اور رات کو اس میں اگر ڈالفن پھنسے تو آپ کو پتا نہیں چلے گا اور اس کو وہاں بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ یہ بہت بڑا چیلنج ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ ایک دہائی قبل بلائنڈ ڈالفن کی تعداد ایک ہزار سے کم تھی لیکن اب اس کی تعداد 1500 کے لگ بھگ ہے اور یہ مقامی لوگوں کو اس مچھلی اور اس کے تحفظ سے متعلق آگاہی مہم کا نتیجہ ہے۔
لیکن ڈاکٹر عظمیٰ کے بقول "نایاب نسل کو بچانے کے لیے مختلف محکموں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر کا کردار اسے بچانے میں ہے اور محکمہ ماہی گیر کا کام مچھلیوں کی پیدوار، ماہی گیری کے لیے اجازت نامے دینا وغیر تو ان کے درمیان زیادہ رابطوں کی ضرورت ہے۔"
پاکستان میں اس نسل کی زیادہ ڈالفن دریائے سندھ میں سکھر سے گدو بیراج کے درمیانی علاقے میں پائی جاتی ہیں۔