رسائی کے لنکس

’ڈی ریڈکلائزیشن‘ مہم کو قومی سطح پر وسعت دینے کا عزم


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

سوات میں کامیاب فوجی آپریشن کے بعد فوج نے مقامی نوجوانوں میں شدت پسندانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی کے لیے گذشتہ دو سال سے خصوصی منصوبے شروع کر رکھے ہیں جہاں ان افراد کو جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف ہنر بھی سکھائے جارہے ہیں جو آگے چل کر اُنھیں روزگار کے حصول میں مدد دیں گے ۔

پاکستانی فوجی قیادت قانون سازوں اور دانشوروں پر زور دیتی آئی ہے کہ سوات میں جاری ڈی ریڈکلائزیشن منصوبوں کو ملک گیر سطح پر وسعت دی جائے کیوں کہ بقول جنرل اشفاق پرویز کیانی کے محض فوجی طاقت کے استعمال سے دہشت گردی اور انتہاپسندی کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔

سوات میں قائم مرکز میں زیر تربیت نوجوان (فائل فوٹو)
سوات میں قائم مرکز میں زیر تربیت نوجوان (فائل فوٹو)

وفاقی حکومت کی طرف سے ڈی ریڈکلائزیشن مہم قومی سطح پر بڑھانے کا فیصلہ بھی بظاہر سوات میں ان منصوبوں کے مثبت نتائج سامنے آنے کے بعد کیا گیا ہے۔ سیاسی و فوجی قیاد ت پر مشتمل کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے بدھ کی شب ہونے والے اجلاس میں کیے گئے فیصلے کے مطابق ڈی ریڈکلائزیشن پروگرام پر خصوصی توجہ دینے کا مقصد شدت پسندی اور دہشت گردی سے منسلک نوجوانوں کو دوبارہ قومی دھارے میں شامل کرنااور اُنھیں معاشرے کا فعال رکن بنانا ہے ۔

وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سمیت دیگر سیاسی قائدین یہ کہتے آئے ہیں انتہاپسندی کی بنیادی وجہ جہالت ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے تعلیم کا فروغ ناگزیر ہے۔ حکمران جماعت کی رکن قومی اسمبلی روبینہ قائم خانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ” نوجوان نسل کوتعلیم اور ہنر سے آراستہ کرنے پر ہمیں زیادہ سے زیادہ توجہ دینی چاہیئے۔ کوئی بھی باشعور آدمی سمجھ سکتا ہے کہ تعلیم بہترین حل ہے دہشت گردی سے چھٹکار اپانے کے لیے۔“

پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ اُن کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ملک کے نصف آبادی والے اس صوبے میں شدت پسندی پر قابو پانے کے لیے پسماندہ اضلاع میں ایک مہم شروع کر رکھی ہے جس کے تحت اربوں روپے خرچ کرکے دانش اسکول کے نام سے ایسے مدارس قائم کیے گئے ہیں جہاں دو ر حاضر کے تقاضوں کے مطابق غریب بچوں کو جدید تعلیم مفت دی جارہی ہے ۔ ”وہ مدارس جو ریڈکلائزیشن یا بنیاد پرستی کو فروغ دے رہے ہیں ، ان کے مقابلے میں جو ماڈرن مدارس ہم بنا رہے ہیں وہاں سے لوگ صرف مولوی بن کر نہیں نکلیں گے بلکہ انجینئر، ڈاکٹر ، سیاستدان یا پروفیسر بن کر نکلیں گے ۔“

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ دانش اسکولوں کا ماحول مدارس جیسا ہوگا جہاں بچوں کو مفت کپڑے، کتابیں اور رہائش فراہم کی جائے گی تاکہ غریب لوگ اپنے بچوں کو مدارس کی بجائے ان اداروں میں بھیجیں۔ ” ہم نے دانش اسکول میں داخلے کے لیے یہ شرط رکھی ہے کہ یا تو بچہ یتیم ہو، دوسرا ایسے بچے کو داخلہ ملے گا جس کے والد کی آمدن دس ہزار سے کم ہے۔ وہاں کسی زمیندار کا جاگیردار کا یا افسر یا کسی سیاست دان کا بچہ داخل نہیں ہوسکتا۔ اس طبقے تک ہم نے پہنچنے کی کوشش کی ہے (جن کا شدت پسندی کی طرف راغب) ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے اور یہ سارے اسکول جنوبی پنجاب میں ہیں دیہی علاقوں میں بنے ہیں۔ ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ دانش اسکول سے جس گاؤں کے دو بچے پڑھ جائیں گے وہ آگے چل کر پورے گاؤں کی سوچ کو وہ تبدیل کریں گے۔‘‘

سوات میں فوج کے زیرانتظام مراکز ’مشعل ‘ اور ’صباوٴن‘ میں سینکڑوں ایسے نوجوانوں اور بچوں کی نفسیاتی اور تعلیمی تربیت دی جارہی ہے جنہیں طالبان کے خلاف آپریشن راہ راست کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

XS
SM
MD
LG