رسائی کے لنکس

گجرات سے گرفتار ہونے والے اُسامہ بن لادن کے قریبی ساتھی امین الحق کون ہیں؟


  • القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کے قریبی ساتھی امین الحق گجرات سے گرفتار
  • امین الحق پنجاب میں اہم تنصیبات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے: سی ٹی ڈی پنجاب
  • ملزم کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے: سی ٹی ڈی
  • اقوامِ متحدہ کی دہشت گردوں سے متعلق فہرست کے مطابق امین الحق اُسامہ بن لادن کے سیکیورٹی کو آرڈینیٹر رہ چکے ہیں۔

پاکستان کے صوبے پنجاب کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کے قریبی ساتھی امین الحق کی گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے۔

سی ٹی ڈی پنجاب کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ امین الحق 1996 سے اُسامہ بن لادن کے قریب تھے اور دہشت گردی کی کئی کارروائیوں میں ملوث تھے۔ امین الحق کا نام اقوام متحدہ کی عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں بھی شامل ہے۔

نائن الیون کے بعد پاکستان سے القاعدہ رہنماؤں کی بڑی تعداد کو گرفتار کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں حکام کی جانب سے کسی بھی القاعدہ رہنما کی یہ بڑی گرفتاری قرار دی جا رہی ہے۔

سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ امین الحق صوبے میں اہم تنصیبات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ ملزم کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

سی ٹی ڈی کے مطابق امین الحق کو انٹیلی جینس آپریشن کے دوران ضلع گجرات کے علاقے سرائے عالمگیر سے گرفتار کیا گیا۔

سی ٹی ڈی افسر کا مزید کہنا تھا کہ امین الحق کو القاعدہ سے تعلق کی بنیاد پر 2007 میں گرفتار کیا گیا تھا اور چار سال کی قید کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا تھا جس کے بعد وہ روپوش ہو گئے تھے۔

امین الحق کون ہیں؟

القاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیموں پر تحقیق کرنے والے امریکی ادارے 'لانگ وار جرنل' کے مطابق اگست 2011 میں امین الحق اسامہ بن لادن کی ذاتی سیکیورٹی پر مامور 'بلیک گارڈ' نامی القاعدہ کے شعبے کے اہم رکن تھے۔

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ امین الحق جو محمد امین کا نام بھی استعمال کرتے ہیں کا تعلق افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار سے ہے اور ان کا القاعدہ اور افغان طالبان دونوں سے قریبی تعلق رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امین الحق پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے اور انہوں نے پاکستان میں طب کی پریکٹس بھی کی ہے۔

البتہ سی ڈی ٹی افسر نے دعوٰی کیا کہ امین الحق نے پاکستان کا قومی شناختی کارڈ بھی بنایا ہوا ہے جس پر لاہور کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا کے شہر ہری پور کے پتے درج ہیں۔

القاعدہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں کی سرگرمیوں پر تحقیق کرنے والے غیر سرکاری ادارے 'دی خراسان ڈائری' سے وابستہ محقق احسان اللہ ٹیپو محسود نے وائس اف امریکہ کو بتایا کہ امین الحق کا ابتدائی تعلق افغان گروہ حزبِ اسلامی کے اس دھڑے سے تھا جس کی سربراہی مولوی محمد یونس خالص کرتے تھے۔

خیال رہے کہ حزبِ اسلامی کا یہ دھڑا 'پشاور سیون' نامی ان سات افغان مجاہدین گروہ میں شامل تھا جنہوں نے 80 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا تھا۔

اسامہ بن لادن سے قریبی تعلق

امین الحق کا نام عالمی ذرائع ابلاغ میں اس وقت منظرِ عام پر آیا جب انہوں نے 2001 میں امریکہ اور نیٹو کے مشترکہ حملے کے وقت افغان مشرقی صوبے ننگر ہار کے تورا بورا پہاڑی سلسلے سے اسامہ بن لادن کی جان بچاتے ہوئے انہیں فرار کروانے میں مدد کی۔

شدت پسند تنظیموں پر تحقیق کرنے والے ایک اور امریکی ادارے کاؤنٹر ایکسٹریم ازم پراجیکٹ پر شائع امین الحق کے پروفائل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سوڈان سے بے دخل کیے جانے کے بعد اسامہ بن لادن کو افغانستان میں مدد فراہم کرنے والی تنظیم حزبِ اسلامی کا یہی دھڑا تھا جس سے امین الحق وابستہ تھے۔

رپورٹ کے مطابق امین الحق کے القاعدہ اور اسامہ بن لادن سے قریبی تعلق کی ہی وجہ سے 2001 میں اقوامِ متحدہ اور امریکی حکومت کی طرف سے جاری کردہ دہشت گردوں کی فہرست میں امین الحق کا نام شامل کیا گیا تھا۔

احسان اللہ ٹیپو محسود کا کہنا تھا کہ امین الحق کا قریبی تعلق تو اسامہ بن لادن سے رہا ہو گا مگر وہ تنظیمی طور پر القاعدہ کے اہم ارکان میں شمار نہیں کیے جا سکتے۔

ان کا کہنا ہے کہ "پاکستان اور افغانستان میں القاعدہ، افغان طالبان یا دیگر شدت پسند تنظیموں کو ٹھکانے مہیا کرنا، علاج کرانا وغیرہ ایک معمول تھا۔ امین الحق کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کا اس دوران علاج بھی کرایا تھا۔"

امین الحق کو اخری مرتبہ اگست 2021 میں افغانستان پر طالبان پر قبضے کے کچھ ہفتوں بعد کابل میں طالبان کے ہمراہ دیکھا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ غائب ہو گئے۔

احسان اللہ ٹیپو محسود کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت بھی جب امین الحق کافی عرصے بعد افغانستان میں نظر ائے تو ان پر امریکی حکومت کی جانب سے بھی کوئی سنجیدہ ردِعمل دیکھنے کو نہیں ملا تھا جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ القاعدہ کی صفوں میں اہمیت کے حامل نہیں تھے۔"

  • 16x9 Image

    ضیاء الرحمٰن خان

    ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم ایک انویسٹیگیٹو صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان کے سیکیورٹی معاملات، سیاست، مذہب اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG