امریکہ نے پاکستان کو کرونا وائرس کے خلاف لڑنے کیلئے 100 میڈیکل وینٹی لیٹر عطیہ کئے ہیں۔ جمعہ کے روز امریکی سفارتخانے سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ امداد صدر ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کیلئے ایک فراخدلانہ پیشکش ہے جو اس مرض سے نمٹنے کیلئے ضروری اور اہم ہے۔ اور یہ کہ امریکہ عالمی وبا کے خلاف پاکستان کی ہنگامی کاوشوں کی حمایت کرتا ہے۔
پاکستان میں کرونا وائرس کی لپیٹ میں آنے والوں کی کُل تعداد دو لاکھ بائیس ہزار ہے، جب کہ اس وبا سے اب تک 4600 کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر اسد مجید نے جمعرات کے روز ایک آن لائین فورم پر بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کرونا وائرس سے نمٹنے کی کوششوں میں ہمیشہ فراخدلانہ امداد کرتا رہا ہے اور پاکستان امریکہ کے دس ترجیحی ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔
امریکہ پہلے ہی پاکستان کو کرونا وائرس کی لیبارٹریوں میں جانچ، مرض کی تشخیص اور مریضوں کی دیکھ بھال کی صلاحیت بڑھانے اور وبا سے متعلق دیگر چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے، تقریباً 27 ملین ڈالر کی امداد دے چکا ہے۔
امریکی سفارتخانے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے، پاکستان کی جانب سے دواؤں اور دیگر اشیا کے عطیہ کا بھی امریکہ شکر گزار ہے۔
اس سال مئی میں، پاکستان نے امریکہ کو کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے ادویات اور دیگر طبی سامان فراہم کیا تھا، جو بقول عہدیداروں کے، دونوں ملکوں کے درمیان دوستی اور یک جہتی کی ایک علامت تھی۔ ایک لاکھ ماسک، پچیس ہزار اوورآل اور ادویات کا یہ عطیہ فیڈرل ایمرجنسی مینیجمنٹ ایجنسی (فیما) کو دیا گیا تھا۔
اُس وقت امریکہ کے وزیر خارجہ، مائیک پومپیو نے پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ فیما کیلئے پاکستان کے حفاظتی لباس اور ماسک کی یہ ہمدردانہ امداد کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان یک جہتی کی ایک علامت ہے۔
پاکستان نے ایک دوا کا، جسے عرفِ عام میں کونین کہا جاتا ہے، عطیہ بھی امریکہ کو دیا تھا، جسے اس وقت کرونا وائرس کے خلاف ایک دوائی کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ تاہم، بعد میں اس دوا سے علاج کے بارے میں امریکی اداروں نے منع کر دیا تھا۔
پاک امریکہ تعلقات
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے پارلیمان کو بتایا تھا کہ پاکستان کے ٹرمپ انتظامیہ کےساتھ اتار چڑھاؤ کے شکار تعلقات میں گزشتہ دو برسوں کے دوران خاصی بہتری پیدا ہوئی ہے۔ دو طرفہ تعلقات میں بظاہر یہ بہتری افغانستان میں گزشتہ دو عشروں سے جاری لڑائی کو ختم کروانے کی امریکی کاوشوں میں پاکستان کے قریبی تعاون سے پیدا ہوئی ہے۔
صدر ٹرمپ اور وزیر عظم عمران خان کے درمیان اب تک تین ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ دونوں لیڈروں کی جولائی سن 2019ء میں وائٹ ہاؤس میں پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ ان ملاقاتوں کے دوران، صدر ٹرمپ نے بارہا دوطرفہ تجارت اور معاشی روابط بڑھانے کا وعدہ کیا تھا۔ امریکی صدر نے کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کروانے کی بھی پیشکش کی تھی۔
جمعرات کے روز امریکی جریدے واشنگٹن ڈِپلومیٹ کے زیر اہتمام آن لائین فورم سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی سفیر اسد مجید کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت کو امید تھی کہ امریکی انتخابات سے پہلے صدر ٹرمپ اپنے آپ کو کشمیر پر ہونے والی سفارتکاری میں ملوث کریں گے۔
پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ پاکستان اب بھی یہ سمجھتا ہے کہ اگر کوئی ملک اثر انداز ہو سکتا ہے اور شاید بھارت کو قائل کر سکتا ہے اور انکے اقدامات میں معقولیت پیدا کر سکتا ہے، تو وہ ہے امریکہ اور اس کا صدر۔
بھارت نے امریکی ثالثی کی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔ بقول بھارت، اس کی یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ کسی تیسرے فریق کی مداخلت کا مخالف ہے، اور وہ پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو دو طرفہ بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔
جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت رکھنے والے پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ سال اگست سے تناؤ میں اس وقت اضافہ ہونا شروع ہوا جب بھارتی وزیر اعظم کی حکومت نے کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کر کے کرفیو جیسی صورتحال نافذکر دی تھی۔
پاکستان نے کشمیر میں بھارتی اقدام کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کو مسترد کر دیا تھا۔ قرارداد میں کشمیر کو ایک متنازع علاقہ تسلیم کیا گیا ہے، اور دونوں ملکوں کو اس کی حیثیت میں تبدیلی لانے سے باز رکھا گیا ہے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا دو تہائی علاقہ ہے، جبکہ باقی علاقے کا انتظام پاکستان کے پاس ہے۔ دونوں ملک، پورے کشمیر کو اپنا حصہ قرار دیتے ہیں۔