ایک ایسے وقت میں جب کرونا وائرس کی وبا پھیلی ہوئی ہے اور اس سے محفوظ رہنے کے طریقوں میں سب سے اہم سماجی فاصلہ اور ہاتھوں کو بار بار صابن اور صاف پانی سے دھونا ہے، دنیا بھر میں پناہ گزینوں کے کیمپوں میں ان اقدامات پر عمل کرنا ناممکن حد تک مشکل ہے۔
اقوامِ متحدہ کا پناہ گزینوں کا ادارہ (یو این ایچ سی آر) اپنے طور پر ان پناہ گزینوں کو محفوظ رکھنے کے اقدامات کر رہا ہے۔
ادارے کے ترجمان، بابر بلوچ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ابھی تک صرف جرمنی میں مقیم کچھ پناہ گزین اس مرض میں مبتلا پائے گئے۔ لیکن، یو این ایچ سی آر تمام ملکوں سے جہاں پناہ گزین مقیم ہیں، کہہ رہا ہے کہ وہ اپنے نیشنل ایکشن پلان میں ان پناہ گزینوں کو بھی شامل کریں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران نے اس سلسلے میں مثبت جواب دیا ہے اور بقیہ ممالک بھی تعاون کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یو این ایچ سی آر نے اس مرحلے پر ان پناہ گزینوں کے لئے دنیا کے ملکوں سے 255 ملین ڈالر کی مدد کی اپیل کی ہے اور کئی ملکوں کی جانب سے مثبت جواب بھی مل رہا ہے۔
بابر بلوچ نے کہا کہ اس وقت دنیا میں پناہ گزینوں کی تعداد 26 ملین ہے جن میں پانچ ملین کے قریب وہ فلسطینی پناہ گزیں بھی شامل ہیں جو اقوام متحدہ کے ریلیف اینڈ ورک ادارے برائے فلسطینی پناہ گزیں یا یو این آر ڈبلو اے کی ذمہ داری ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ جو حکومتیں پناہ گزینوں کو بوجہ مجبوری رکھے ہوئے ہیں، ان سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے نیشنل ایکشن پلان میں ان پناہ گزینوں کو شامل کریں گی۔
انہوں نے کہا ان کا ادارہ ان حکومتوں کو یہ ہی سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ کرونا وائرس ان کے مقامی لوگوں اور پناہ گزینوں کے درمیان فرق نہیں کرتا۔ اس لئے ان کو سب کے تحفظ کے لئے یکساں اقدامات کرنے چاہئیں۔
بابر بلوچ نے مزید بتایا کہ شامی پناہ گزینوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے پھر افغان، جنوبی سوڈانی، صومالی اور برما کے روہینگاز شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل مسلسل گلوبل سیز فائر کی اپیلیں کر رہے ہیں کہ دنیا میں جہاں جہاں بھی جنگیں ہو رہی ہیں، انہیں روک دیا جائے تاکہ سب متحد ہو کر کرونا کے خلاف لڑ سکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کہ یو این ایچ سی آر کی پوری کوشش ہے کہ کسی بھی ملک میں ایسے حالات پیدا نہ ہوں کہ جو لوگ اپنی جان مال کے لیے خطرے کے پیش نظر اپنے ملکوں سے پناہ گزیں بن کر ان ملکوں میں جائیں تو انہیں وہاں سے واپس اسی عذاب میں جانا پڑے جہاں سے وہ بھاگ کر آئے تھے۔ برعکس اس کے، انھیں امان ملنی چاہیے۔