رسائی کے لنکس

محسن داوڑ کو پشاور سینٹرل جیل منتقل کرنے کا حکم


محسن داوڑ (فائل فوٹو)
محسن داوڑ (فائل فوٹو)

خیبر پختونخوا کی ایک عدالت نے پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے گرفتار رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کے جسمانی ریمانڈ میں اضافے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر پشاور جیل منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔

پولیس نے محسن داوڑ کو آٹھ روزہ جسمانی ریمانڈ کی تکمیل پر جمعے کو بنوں کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیش کیا۔

عدالت میں استغاثہ نے 26 مئی کو شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں سیکورٹی اہل کاروں کی چوکی پر ہونے والی جھڑپ کی تحقیقات کے نامکمل ہونے کے باعث محسن داوڑ کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی درخواست کی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔

عدالت نے محسن داوڑ کو 19 جون تک جوڈیشل ریمانڈ پر پشاور سینٹرل جیل منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔

کے پی کی حکومت نے کہا تھا کہ محسن داوڑ کو چھاپہ مار کر گرفتار کیا جبکہ پی ٹی ایم کے مطابق محسن داوڑ نے شمالی وزیرستان کے سرکردہ قبائلی عمائدین اور سول انتظامیہ کے افسران پر مشتمل ایک جرگے کے ساتھ مذاکرات کے بعد گرفتاری دی تھی۔

گرفتاری کے بعد عدالت نے داوڑ کو آٹھ روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔

محسن داوڑ کے خلاف 26 مئی کو شمالی وزیرستان کے علاقے خڑ کمر میں فوج کی ایک چوکی پر حملے کا مقدمہ درج ہے۔ مقدمے میں محسن داوڑ کے علاوہ جنوبی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی اور پی ٹی ایم کے ایک اور مرکزی رہنما علی وزیر سمیت آٹھ دیگر افراد بھی نامزد ہیں۔

پاکستانی فوج کے ترجمان ادارے 'آئی ایس پی آر' کا الزام ہے کہ پی ٹی ایم کے کارکنوں نے علی وزیر اور محسن داوڑ کی قیادت میں چوکی پر حملہ کیا تھا جس پر فوجی اہل کاروں نے اپنے دفاع میں فائرنگ کی تھی۔

فوجی ترجمان نے واقعے کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ پی ٹی ایم کے رہنما ایک روز قبل گرفتار ہونے والے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی رہائی کے لیے فوجی اہل کاروں پر دباؤ ڈالنا چاہتے تھے۔

لیکن، پی ٹی ایم رہنما فوج کے اس دعویٰ کو مسترد کر چکے ہیں اور ان کا مؤقف ہے کہ فوجی اہل کاروں نے ان کے قافلے پر بلااشتعال فائرنگ کی تھی۔

واضح رہے کہ علی وزیر کو 26 مئی کو پیش آنے والے واقعے کے فوری بعد ہی حکام نے حراست میں لے لیا تھا جو اس وقت عدالتی ریمانڈ پر پشاور جیل میں قید ہیں۔

خیبر پختونخوا کے وزیرِ اطلاعات شوکت علی یوسفزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ پشتون تحفظ تحریک سے تعلق رکھنے والے دونوں ارکانِ قومی اسمبلی کے جسمانی ریمانڈ کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے اور اب دونوں کو جیل بجھوا دیا گیا ہے، جو، ان کے بقول، اس طرح کے معاملات میں ایک معمول کا طریقہ کار ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شوکت یوسفزئی نے بتایا کہ شمالی وزیرستان میں خڑ کمر واقعے کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے قبائلی روایات کے مطابق جرگوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ تنازع کے حل کے لیے بات چیت جاری ہے اور امید ہے کہ مسئلہ بہت جلد آئین اور قانون کے مطابق حل ہوجائے گا۔

تاہم، پشتون تحفظ تحریک کی خاتون رہنما ثنا اعجاز نے کہا ہے کہ چونکہ دونوں ارکانِ اسمبلی کے خلاف مقدمات کا اندراج اور ان کی گرفتاری، ان کے بقول، غیر قانونی اور غیر آئینی ہے، اسی وجہ سے ان کی رہائی کے لیے سیاسی طریقہ کار کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت احتجاج کے علاوہ قانونی راستے کو بھی اختیار کیے ہوئے ہے اور دونوں ارکانِ اسمبلی سمیت تمام گرفتار کارکنوں کی رہائی کے لیے عدالتوں سے رجوع کر رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG