رسائی کے لنکس

عدالت عظمٰی: آئی ایس آئی کے سیاسی سیل کی معلومات طلب


سپریم کورٹ آف پاکستان
سپریم کورٹ آف پاکستان

پاکستان کی عدالت عظمٰی نے وزارت دفاع سے وہ سرکاری اعلامیہ طلب کیا ہے جس کے تحت 1975ء میں خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی، کا بدنام زمانہ سیاسی سیل عمل میں لایا گیا۔

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے سربراہی میں تین رکنی بینچ 1996ء میں دائر کردہ تحریک استقلال کے بانی سربراہ اصغر خان کی اُس درخواست کی ان دنوں سماعت کررہا ہے جس میں آئی ایس آئی پر الزام لگایا گیا ہے کہ پیپلزپارٹی کو 1990ء کے انتخابات جیتنے سے روکنے کے لیے ادارے کے سیاسی سیل نے رشوت کے طور پر سیاست دانوں میں بھاری رقوم تقسیم کی تھیں۔


اس مقدمے کی جمعہ کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر اس ضمن میں قابل قبول ثبوت پیش کیا گیا تو عدالت آئی ایس آئی سے رقوم وصول کرنے والے سیاست دانوں کو نوٹس بھیجے گی۔

اٹارنی جنرل عرفان قادر نے عدالت عظمٰی کو بتایا کہ آئی ایس آئی کے سیاسی سیل کے قیام سے متعلق سرکاری اعلامیہ تاحال نہیں مل سکا ہے۔

لیکن چیف جسٹس نے اُن کے اس بیان پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ ’’ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک اعلامیہ جاری کیا گیا اور وزارت دفاع کے پاس اس کی نقل نہیں ہے؟‘‘۔

اُنھوں نے وزارت دفاع کولاپتہ نوٹیفیکشن عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کو اس سلسلے میں وزارت کے ساتھ تعاون کی ہدایت بھی کی۔

تین رکنی بینچ کے پوچھنے پر کمرہ عدالت میں موجود آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے عدالت کو بتایا کہ سیاست دانوں میں رقوم اُس وقت فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ کے حکم پر تقسیم کی گئی تھیں۔

اُنھوں نے کہا کہ مجموعی طور پر چودہ کروڑ روپے فراہم کیے گئے تھے جس میں سے چھ کروڑ تقسیم کیے گئے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کی کھلی سماعت کی جائے گی اور مناسب ثبوت ملنے کے بعد عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی۔ تاہم اُنھوں نے کہا کہ جب تک رقوم وصول کرنے والے افراد اپنے بیانات قلمبند نہیں کرواتے اس مقدمے کا فیصلہ نہیں سنایا جاسکتا۔

مقدمے کی آئندہ سماعت 16 جولائی کو ہوگی۔

XS
SM
MD
LG