اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی جائیداد نیلام کرنے کی قومی احتساب بیورو (نیب) کی درخواست منظور کرلی ہے۔
عدالت نے نیب کو سابق وفاقی وزیرِ خزانہ کی گاڑیوں اور گلبرگ لاہور میں موجود جائیداد نیلام کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
عدالت میں جمع کرائی گئی درخواست میں نیب نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ جائیداد قرق کرنے کے چھ ماہ بعد تک ملزم عدالت سے رجوع کر سکتا ہے، لیکن ملزم کی جانب سے ابھی تک کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ عدالت اسحٰق ڈار کی قرق شدہ جائیداد نیلام کرنے کا حکم دے۔
نیب کے وکیل نے عدالت کو یہ بھی بتایا تھا کہ جائیداد کی نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم قومی خزانے میں جمع کرائی جائے گی۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے منگل کو درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا جس کے مطابق عدالت نے اسحاق ڈار کی جائیدادیں نیلام کرنے کی نیب کی درخواست منظور کرلی ہے۔
عدالت نے صوبائی حکومت کو اختیار دیا ہے کہ وہ جائیدادیں فوری طور پر قبضے میں لے۔ قبضے میں لیے جانے والے اثاثے نیلام کب کیے جائیں، یہ اختیار صوبائی حکومت کو ہو گا۔
عدالت نے نیب سے الفلاح سوسائٹی میں واقع تین پلاٹس اور گاڑیوں کو قبضے میں لیے جانے کی تعمیلی رپورٹ بھی طلب کرلی۔ مکمل تعمیلی رپورٹ آنے پر تفصیلی حکم جاری کیا جائے گا۔
عدالت نے ریمارکس دیے ہیں کہ اسحاق ڈار کی بیرونِ ملک جائیدادوں سے متعلق بھی قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
نیب کی جانب سے عدالت میں اسحاق ڈار کے قرق شدہ اثاثوں کی تفصیلات پیش کی گئی تھیں جن کے مطابق اسحاق ڈار اور ان کی اہلیہ کی شراکت میں قائم ٹرسٹس کے لاہور اور اسلام آباد میں مختلف بینکوں میں اکاؤنٹس ہیں۔ گلبرگ لاہور میں ایک گھر اور چار ہلاٹس، اسلام آباد میں چار پلاٹس اور تین لینڈ کروزر گاڑیاں، دو مرسڈیز اور ایک کرولا گاڑی بھی ہے۔
نیب کی جانب سے دی جانے والی تفصیلات کے مطابق اسحاق ڈار اور ان کی اہلیہ کی ہجویری ہولڈنگ کمپنی میں 34 لاکھ 53 ہزار کی سرمایہ کاری ہے۔
اسحاق ڈار کے دبئی میں تین فلیٹ اور ایک مرسیڈیز گاڑی ہے جب کہ بیرونِ ملک تین کمپنیوں میں ان کی شراکت داری بھی ہے۔
سابق وزیرِ خزانہ کی اپنے خلاف جاری مقدمات میں مسلسل عدم حاضری پر احتساب عدالت نے نیب کی درخواست پر انہیں اشتہاری قرار دیا تھا جس کے بعد نیب نے ان کی جائیداد کی قرقی کے حوالے سے درخواست دی تھی۔
اسحاق ڈار گزشتہ کئی ماہ سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور ان کے وکلا کا موقف رہا ہے کہ وہ علاج کی غرض سے بیرونِ ملک گئے ہیں۔
پاکستان حکومت نے برطانیہ سے اسحاق ڈار کی حوالگی کے لیے رابطہ بھی کیا تھا لیکن پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ملزمان کے تبادلے کا معاہدہ نہ ہونے کے باعث برطانوی حکومت نے انہیں حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا۔