رسائی کے لنکس

امریکہ میں دہشت گردی کے واقعات کے انسداد کی کوششیں


الپاسو، ٹیکساس
الپاسو، ٹیکساس

امریکہ میں قانون کے نفاذ سے وابستہ حکام اور ماہرین نفرت پھیلانے والے گروہوں کے مقابلے میں مدد کے لیے ویسے ہی طریقہ کار کے بارے میں سوچ رہے ہیں جیسے حکومت نے غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف لڑائی کے حوالے سے اختیار کر رکھے ہیں۔

حکام اور ماہرین کے اس گروپ نے اس مسئلے پر واشنگٹن کے ’سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز‘ میں منگل کو منعقدہ ایک ’پینل ڈسکشن‘ کے دوران بات کی۔

الپاسو، ٹیکساس میں گزشتہ ماہ ہونے والے فائرنگ کے واقعے کو قانون نافذ کرنے والے حکام نے اندرون ملک دہشت گردی کے ایک واقعے کے طور پر لیا تھا جس میں 22 لوگ ہلاک ہوئے تھے۔

تاہم، حملہ آور پیٹرک کروسیس پر دہشت گردی کا الزام عائد نہیں کیا گیا تھا، بلکہ اس کے بجائے اس پر بڑے پیمانے پر قتل کا الزام عائد کیا گیا۔

ماہرین نے کہا ہے کہ ایسا اس لیے ہوا کہ امریکہ میں ایسا کوئی وفاقی قانون نہیں ہے جو اندرونِ ملک دہشت گرد قرار دیے جانے والے امریکی شہریوں کو سزا دیتا ہو۔

وفاقی قانون کے مطابق کسی شخص پر صرف اس صورت میں دہشت گردی کا الزام عائد کیا جا سکتا ہے اگر وہ کسی ایسی غیر ملکی تنظیم کی طرف سے کام کر رہا ہو جسے امریکہ دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہو، مثال کے طور پر داعش یا القاعدہ۔

نیشنل سکیورٹی کی سابق قائم مقام معاون اٹارنی جنرل میری مک کارڈ کا کہنا ہے کہ حکومت اس کارروائی کو اس صورت میں ملکی دہشت گردی سمجھتی ہے اگر وہ یہاں امریکہ میں واقع ہو۔ لیکن، وہ دوسرے نظریات پر مبنی ہو، جس میں ہراساں کیا جائے یا دباؤ ڈالا جائے۔ اور وہ صرف ہراساں کرنے یا دباؤ ڈالنے یا حکومت کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کے ارادے سے کی جائے۔ لیکن، وہ کسی غیر ملکی دہشت گرد تنظیم سے منسلک نہ ہو۔

کانگریس قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ملکی دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات سے نمٹنے میں مدد کے لیے وفاقی قانون میں اصلاح پر غور کر رہی ہے۔

’مک کین انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل لیڈر شپ‘ کے نکولس راموسن کا کہنا ہے کہ اس وقت یہ تعین کرنے کے لیے کچھ کوشش ہو رہی ہے کہ قانون نافذ کرنے والوں کو اس وقت جو طریقے دستیاب ہیں، نئی قانون سازی سے انہیں ان کے علاوہ اور کون سے طریقے دستیاب ہوجائیں گے۔

اُن کے بقول آپ اس قانون کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ان خدشات کے لیے کیا جواز پیش کریں گے جو اس قانون کو آزادی اظہار پر قدغن کا ایک طریقہ سمجھنے کے نتیجے میں پیدا ہوں۔ یا اس قانون کے لیے کیا جواز پیش کریں گے اگر وقت گزرنے کے ساتھ اسے کوئی ایسا ہتھیار سمجھا جائے جسے کسی انداز میں سیاسی رائے کے اظہار کی کسی دوسری قسم کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہو۔

اکتوبر 2018 میں ایک مسلح شخص نے پٹسبرگ کی ایک یہودی عبادت گاہ کے اندر فائرنگ کرتے ہوئے نسل پرستی کی نوعیت کے نعرے لگائے اور 11 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

کیلی فورنیا کی اسٹیٹ یونیورسٹی میں نفرت اور انتہا پسندی کے امور سے متعلق سینٹر کے مطابق، 2018 سے اب تک سفید فاموں کی بالا دستی کے خواہاں افراد 42 لوگوں کو ہلاک کر چکے ہیں جب کہ اسی عرصے کے دوران کسی غیر ملکی دہشت گرد تنظیم سے منسلک ایک جنگجو کی جانب سے صرف ایک قتل کا ارتکاب ہوا۔

سوشل میڈیا کی کمپنیاں اندرون ملک انتہا پسندوں کی موجودگی ختم کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ لیکن، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں صحیح معنوں میں مؤثر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر مل کر کام کرے۔

جارج سیلمن کا کہنا ہے کہ ’’یہاں اس کا حل یہ نہیں ہو سکتا کہ حکومت کو یہ کرنا چاہیے اور پرائیویٹ سیکٹر کو یہ کرنا چاہیے۔ ٹیکنالوجی کی کمپنیوں اور سوشل میڈیا کو اور کچھ کرنا چاہیے‘‘۔

اُن کے بقول آگے بڑھنے کے لیے اس کا حل ریاستی اور مقامی سطح پر حکومت اور قانون نافذ کرنے والوں اور کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے عناصر، مثلاً ذہنی صحت، سماجی سروس اور تعلیم فراہم کرنے والوں کے درمیان شراکت داری کا ایک بہت مربوط ماڈل ہے۔ ہمیں اس مسئلے کے لیے کثیر الجہتی طریقہ کار پر مبنی ایک جامع حل کے اطلاق کی ضرورت ہے‘‘۔

ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ملکی دہشت گردی خواہ کسی بھی قسم کی ہو ایک عالمی مسئلہ ہے‘‘ اور دنیا بھر کی حکومتوں کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

XS
SM
MD
LG