رسائی کے لنکس

چاند کی مٹی گلوبل وارمنگ روکنے میں مدد کر سکتی ہے


ناسا کے اپالو 8 کے مشن کے دوران اتاری جانے والی اس تصویر میں چاند کی سطح کے پس منظر میں زمین دکھائی دے رہی ہے۔ 24 دسمبر 1968
ناسا کے اپالو 8 کے مشن کے دوران اتاری جانے والی اس تصویر میں چاند کی سطح کے پس منظر میں زمین دکھائی دے رہی ہے۔ 24 دسمبر 1968

جیسے جیسے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، اور آب و ہوا کی تبدیی بڑے پیمانے پر تباہ کاریوں کا سبب بن رہی ہے، سائنس دانوں کی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ گلوبل وارمنگ کو روکنے کے لیے نئے نئے حل سامنے لا رہے ہیں، جن میں کچھ واقعتاً بہت دلچسپ ہیں۔

حال ہی میں سانئس دانوں نے ایک نیا نظریہ پیش کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر چاند کی مٹی یا دھول کو زمین اور سورج کے درمیان حائل کر دیا جائے تو زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا عمل نہ صرف رک جائے گا بلکہ اس میں کمی آنا شروع ہو جائے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر سورج کی حرارت کے زمین تک پہنچنے کا ایک سے دو فی صد کا راستہ روک دیا جائے تو کرہ ارض کے درجہ حرارت میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ کی کمی ہو جائے گی۔

ماحولیات کے سائنس دان اس وقت ایسے اقدامات پر زور دے رہے ہیں جس سے زمین کے درجہ حرارت میں تقریباً ڈیڑھ درجے سینٹی گریڈ کی کمی ممکن ہو سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ درجے کی کمی سے زمین کا درجہ حرارت گر کر اس سطح پر چلا جائے گا جب صنعتی ترقی کا آغاز ہوا تھا۔

اس دور کے موسم ماحول دوست تھے۔ اور موسم سے منسلک وہ قدرتی آفات کم کم ہی آتی تھیں جنہوں نے اب گھر کا راستہ دیکھ لیا ہے اور آئے روز کہیں خشک سالی، کہیں شدید بارشیں اور سیلاب اور کہیں سمندری طوفان تباہیاں پھیلا رہے ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے زمین گرم ہوتی جائے گی، ان واقعات کی تعداد اور شدت میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا اور اگر زمین کو مزید گرم ہونے سے روکا نہ گیا تو ہو سکتا ہے کہ اس صدی کے آخر تک زمین رہنے کے قابل نہیں رہے ۔

چاند کی سطح پر جب پہلے خلاباز نیل آرمسٹرانگ نے قدم رکھنے کے بعد مٹی کے نمونے اکھٹے کیے۔ 20 جولائی 1969
چاند کی سطح پر جب پہلے خلاباز نیل آرمسٹرانگ نے قدم رکھنے کے بعد مٹی کے نمونے اکھٹے کیے۔ 20 جولائی 1969

سانئس دان کہتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کا سبب کاربن گیسیں ہیں جو کارخانوں کی چمنیوں، گاڑیوں کے سائلنسروں اور گھروں کے آتش دانوں سے نکل رہی ہیں۔ انسان کی لائی ہوئی ترقی اب اس کے لیے بربادی کا باعث بن رہی ہے۔

سانئس دان کاربن گیسوں کا اخراج صفر کی سطح پر لانے پر اصرار کرتے ہیں۔ لیکن دو سو برسوں میں کوئلے اور معدنی ایندھن جلا کر حاصل ہونے والی ترقی کو کسی متبادل بندوبست پر لانا آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے کیثر سرمایہ، وقت اور تحقیق کی ضرورت ہے۔

کچھ عرصے سے ماہرین کی توجہ کسی ایسے قابل عمل طریقے کی تلاش پر مرکوز ہے جو سستا بھی ہو۔ جس کے لیے ان کی نظریں خلا پر جمی ہیں۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ جب آسمان پر بادل چھا جاتے ہیں تو زمین پر قدرے خنکی محسوس ہونے لگتی ہے کیونکہ بادل کی تہیں سورج کی حرارت کے ایک بڑے حصے کو زمین پر جانے سے روک دیتی ہیں اور حرارت کی لہریں واپس خلا میں پلٹ جاتی ہیں۔

اسی طرح کا ایک بڑا واقعہ سن 1991 میں فلپائن کی آتش فشاں ماؤنٹ پیناٹوبو کے پھٹنے سے پیش آیا تھا جس سے نکلنے والے گرد وغبار نے فضا کے ایک حصے کو ڈھانپ لیا تھا جس سے سورج سے زمین پر آنے والی حرارت کی لہروں کے درمیان ایک رکاوٹ کھڑی ہو گئی تھی۔اس کے نتیجے میں زمین کے شمالی نصف حصے میں ایک سال تک درجہ حرارت معمول سے تقریبا آدھا ڈگری سینٹی گریڈ کم رہا تھا۔

فلپائن کے آتش فشان ماؤنٹ پیناٹوبو پھٹنے کے بعد گہرا دھواں آسمان پر پھیل گیا جس نے سورج کی کرنوں کو زمین پر پہنچنے سے روک دیا۔ 15 جون 1991
فلپائن کے آتش فشان ماؤنٹ پیناٹوبو پھٹنے کے بعد گہرا دھواں آسمان پر پھیل گیا جس نے سورج کی کرنوں کو زمین پر پہنچنے سے روک دیا۔ 15 جون 1991

لیکن اس سے موسم پر اثر پڑا تھا اور جن علاقوں میں لوگ فصلیں اگانے کے لیے بارشوں پر انحصار کرتے ہیں، وہاں پیداوار متاثر ہوئی تھی۔ چنانچہ اس طرح کے طریقے استعمال کرنے کے لیے احتیاط کی ضرورت ہے۔

زمین اور سورج کے درمیان چاند کی دھول اور مٹی کے تہہ بچھانے سے قبل کئی سائنس دان اس پہلو پر بھی سوچ بچار کرتے رہے ہیں کہ خلا میں بڑے بڑے آئینے نصب کر دیے جائیں جو زمین کی طرف آنے والی سورج کی حرارت کو واپس پلٹ دیں۔

بعد ازاں ان کی توجہ خلا کی جانب مبذول ہو گئی اور انہیں کسی ایسی چیز کی تلاش ہوئی جو زمین اور سورج کے درمیان ایک باریک سی چادر تان دے جو فلڑ کے طور پر کام کرے۔

خلا میں بے شمار سیاروں کا گرد و غبار گردش کر رہا ہے۔ ماہرین فلکیات نے کمپیوٹر پر بنائے گئے ماڈلز کے ذریعے مختلف سیاروں کی گرد کا مطالعہ کیا تو انہیں معلوم ہوا که اس مقصد کے لیے سب سے اچھا انتخاب چاند کی مٹی ہے جو سب سے زیادہ حرارت روکتی ہے۔

چاند سے لایا گیا مٹی کا نمونے کو نیویارک کی ایک نمائش میں رکھا گیا۔ 13 جولائی 2017
چاند سے لایا گیا مٹی کا نمونے کو نیویارک کی ایک نمائش میں رکھا گیا۔ 13 جولائی 2017

سائنس دان کہتے ہیں کہ اگر اس مٹی کو زمین اور سورج کے درمیان ایک ایسے مقام پر بکھیر دیا جائے جہاں زمین اور چاند کی کشش کی قوت برابر ہو تو وہ مٹی وہاں مستقلاً موجود رہے گی اور سورج کی حرارت کی اتنی مقدار روک سکے گی جس کا تعین ماہرین کریں گے۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے کیونکہ چاند سے مطلوبہ مقدار میں مٹی لانے پر اتنا ہی خرچ آئے گا جتنا کہ ایک کان کی کھدائی پر آتا ہے۔

یونیورسٹی آف ایڈمبرا کے پروفیسر سٹوارٹ ہسزیڈائن کا کہنا ہے کہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔ یہ گویا سنگ مرمرکے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو فٹ بال پر اس طرح توازن میں رکھنا ہے کہ وہ گرنے نہ پائیں۔ بصورت دیگر لانی جانے والی زیادہ تر مٹّی ہفتے بھر میں وہاں سے سرک جائے گی۔

امپیریل کالج لندن میں فلکیات کی پروفیسر جوہانا ہیگ کہتی ہیں کہ مسئلہ یہ ہے کہ ممکن ہے یہ طریقہ آب و ہوا کی تبدیلی کو روکنے میں مددگار ثابت ہو مگر اس سے آلودگی پھیلانے والوں کو اپنے ذمہ لگائے گئے کام نہ کرنے کا ایک بہانہ مل جائے گا۔

XS
SM
MD
LG