رسائی کے لنکس

پاکستانی امریکی کرونا بحران میں الیکشن کے متعلق کیا سوچتے ہیں؟


حالیہ برسوں کے دوران پاکستانی امریکی شہریوں نے مقامی ریاستی اور قومی سیاست میں نمایاں طور پر حصہ لیا۔ صدارتی الیکشن کے سال میں جب کرونا وائرس بحران ایک بڑے مسئلے کے طور پر سامنے آیا ہے، پاکستانی امریکی سیاست میں کیا کردار ادا کریں گے؟

اس سوال کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ کووڈ نائنٹین کے ساتھ بہت سے مسائل نے جنم لیا ہے، جن میں صحت عامہ، اقتصادی صورتحال اور روزگار کے مواقع کا اچانک ختم ہو جانا شامل ہیں۔

اس موضوع پر بات کرنے کے لیے وائس آف امریکہ نے ڈیموکریٹک اور ریپبلکن پارٹیز سے منسلک دو سیاسی شخصیات سے بات کی۔

صدف جعفر نیوجرسی میں منٹگمری ٹاؤن کی میئر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ امریکی عوام کے لئے یہ ایک بہت مشکل سال ہے۔ ان کے مطابق، کووڈ نائنٹین سے نمٹنے کے لیے پالیسیوں کا اختیار اور ان پر عمل پیرا ہونا اس الیکشن میں اہم ترین مسئلہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ ہر سطح پر لوگ اپنے سیاسی قائدین کی کرونا وائرس بحران سے نمٹنے کی کارکردگی پر اپنا فیصلہ سنائیں گے، کیونکہ یہ صحت عامہ کا ایک بہت سنگین مسئلہ ہے اور پہلے ہی تقریباً 80 ہزار کے قریب امریکی اپنی جان کھو بیٹھے ہیں۔

صدف جعفر نے، جنہیں ڈیموکریٹک پارٹی میں ابھرتی ہوئی سیاستدان سمجھا جاتا ہے، امریکی انتظامیہ کی کارکردگی پر نکتہ چینی کی۔ ان کے بقول، موجودہ پالیسیوں سے عوام کے لیے مسائل زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس بحران اس سال سیاسی بیانیہ اور الیکشن کے نتائج پر بہت اثر انداز ہوگا۔ جہاں تک پاکستانی امریکی اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی بات ہے، انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگ صحت عامہ کے شعبے سے وابستہ ہیں جن میں ڈاکٹر اور نرسیں بھی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگ محنت مزدوری کرکے اپنی روزی کماتے ہیں، جیسا کہ ٹیکسی ڈرائیورز اور روزانہ کی اجرت کمانے والے مزدور۔ وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال نے ان کی زندگیوں پر براہ راست اثرات مرتب کیے ہیں۔

ان حالات میں لوگ ایک تو صحت عامہ کی سہولیات میں بہتری اور دوسری طرف روزگار کے حالات کو یقینی بنانے کی پالیسیاں اور اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سال کرونا وائرس کی وجہ سے الیکشن کے دن سے پہلے 'ارلی ووٹنگ' کے رجحان میں نمایاں اضافہ ہونے کی توقع ہے۔ ڈیموکریٹس یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ روایتی ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے، جبکہ رپبلکن اس تجویز کی مخالفت کرتے ہیں۔

صدف جعفر نے کہا کہ ''میں یہ کہوں گی کہ پاکستانی امریکیوں کو سیاستدانوں سے ان مشکل حالات میں بالکل ناامید نہیں ہونا چاہیے اور ان کو کوشش کرنی چاہیے کہ ایسے نمائندے جو اپنی کارکردگی کے ذریعے وعدوں پر عمل کرتے ہیں ان کا انتخاب کیا جائے''۔

ہیوسٹن میں مقیم پاکستانی امریکی سیاستدان، ایم جے خان نے کہا ہے کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستانی اب سیاست میں پہلے کے مقابلے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں؛ اور انہیں اس سال مسائل اور مشکلات کے باوجود جمہوریت میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

ایم جے خان نے کہا کہ سب سے پہلے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ اتنے بڑے صحت عامہ کے بحران سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھا، کیونکہ، بقول ان کے، گزشتہ کئی دھائیوں سے امریکہ نے اپنی زیادہ تر توجہ دنیا میں اپنی علمی لیڈرشپ برقرار رکھنے پر مرکوز کر رکھی تھی۔ اسی وجہ سے اسے کووڈ نائنٹین کی وبا سے نبردآزما ہونے میں انتہائی ضروری ساز و سامان کی عدم دستیابی کا سامنا کرنا پڑا۔

انھوں نے کہا کہ وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ امریکہ کو اس چیلنج سے مقابلہ کرنے کے لیے قومی سطح پر زیادہ موثر لیڈرشپ کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔

ایم جے خان نے، جو ہیوسٹن سٹی کونسل کے ممبر بھی رہ چکے ہیں، کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کے امریکی معیشت کے کھولنے کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی امریکی کمیونٹی جس کی تعداد تقریباً سات اور دس لاکھ کے درمیان بتائی جاتی ہے، امریکہ کی کامیاب ترین کمیونٹیز میں شامل ہے، کیونکہ اس کے بہت سے لوگ مختلف شعبوں میں نمایاں کام کرتے ہیں۔ الیکشن کے سال کے دوران ان کی جمہوری عمل میں بھرپور شرکت کمیونیٹی کے لیے اہم ہے۔

پاکستانی امریکی شہریوں کا اس الیکشن سال میں سیاست میں حصہ لینے کے بارے میں ایم جے خان نے کہا کہ انہیں ووٹنگ کی شرح پہلے سے زیادہ بڑھانا چاہیے، کیونکہ ووٹ کا حق استعمال کرنا جمہوری عمل کا اہم ترین حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستانی امریکی شہری ڈیموکریٹک اور ریپبلکن پارٹییوں دونوں میں شامل ہیں۔

بقول ان کے، ''ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہماری کمیونٹی کلی طور پر کسی ایک پارٹی میں شامل نہ ہو۔ ہمیں اپنے آپ کو کسی ایک پارٹی تک محدود نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ وہ پارٹی یہ سمجھے گی کہ ہم تو ان کے ووٹر ہیں ہی۔ اس طرح، ہماری اہمیت کم ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس دونوں پارٹیوں میں آواز اور اثر رسوخ رکھنا کامیابی کے لئے اہم ہے''۔

XS
SM
MD
LG