کیا گرم موسم کرونا وائرس کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے؟
کرونا وائرس کے دُنیا بھر میں پھیلاؤ پر بعض حلقوں میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ کیا گرم موسم کرونا وائرس کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے یا نہیں؟
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ اپریل میں گرم موسم کے باعث کرونا وائرس کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ بعض دیگر طبی ماہرین کا بھی یہ خیال تھا کہ گرم موسم سے فلو اور دیگر بیماریوں میں کمی سے لامحالہ کرونا وائرس کیسز بھی کم ہو جائیں گے۔
البتہ جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ایک محقق کرسٹوفر مورس کا کہنا ہے کہ یہ کہنا قبل ازوقت ہے۔ ایسا ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ اُن کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس بھی فلو اور سانس سے متعلقہ بیماری ہے۔ موسم سرما میں یہ بڑھ جاتی ہیں اور موسم گرما میں اس میں کمی ہوتی ہے۔
لیکن سائنس دانوں کے ایک گروپ کا خیال ہے کہ گرم موسم اس وائرس کے تدارک میں مدد دے سکتا ہے۔ لیکن اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ آئندہ سردیوں میں یہ وبا دوبارہ حملہ آور نہیں ہو گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سردیوں میں فلو اور سانس کی بیماریاں اس لیے زیادہ لاحق ہوتی ہیں کیوں کہ ہوا میں خشکی کا عنصر گرمیوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔
لیکن سائنس دانوں کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کا معاملہ کچھ مختلف ہے۔ یہ وائرس چین کے ٹھنڈے علاقوں کے علاوہ نسبتاً گرم اور مرطوب آب و ہوا والے علاقوں میں بھی پایا گیا۔
امریکی ویزوں کی معطلی سے ہزاورں چینی نوجوانوں کا روزگار خطرے میں پڑ گیا
چین سے تعلق رکھنے والی، کورٹنی ہوانگ 13 برس قبل نرسنگ کی تعلیم کے لیے امریکہ آئی تھیں۔ وہ امریکہ کی چاہت میں گرفتار ہو چکی ہیں اور امریکی شہری بننے کی خواہش مند ہیں۔
لیکن، کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کے معاملے پر جب گزشتہ ماہ ٹرمپ انتظامیہ نے غیر ملکی شہریوں اور رہائشیوں کے امریکہ میں داخلے پر بندش عائد کر دی ہے، ہوانگ کے سارے خواب، روزگار، مستقبل اور شہری بننے کی خواہش سب داؤ پر لگ گئے ہیں۔
جوں جوں ان بندشوں میں سختی برتی جا رہی ہے، ہوانگ کا مستقبل خطرے میں پڑتا جا رہا ہے۔
ہوانگ کے بقول، ''میں واقعی خوف زدہ ہوں۔ میرا پیچھے بہت کچھ ہے۔ اگر میں واپس نہ گئی تو یہ میرے لیے بہت ہی دشوار معاملہ ہو گا''۔
امریکہ نے تین فروری سے چین میں ویزوں کے اجرا کا کام معطل کر دیا تھا۔ اس اقدام پر نظر ثانی نہیں کی گئی اور ابھی یہ بات واضح نہیں کی یہ تعطل کب ختم ہو گا۔ اس کے نتیجے میں ان سینکڑوں چینی شہریوں کا مستقبل خطرے میں ہے جو ورک ویزا حاصل کرنے کے خواہش مند تھے، اس پابندی سے ان کا روزگار چھننے والا ہے۔
کرونا وائرس سے بچنے کے لیے اپنا موبائل فون روزانہ صاف کریں
کرونا وائرس سے بچنے کے لیے آپ نے یہ تو پڑھا اور سنا ہو گا کہ اپنے ہاتھوں کو صابن کے ساتھ دن میں کئی کئی بار کم ازکم 20 سیکنڈ کے لیے اچھی طرح دھوئیں۔ لیکن کیا آپ کا دھیان اپنے موبائل فون کی طرف بھی گیا ہے جسے دن میں بیسیوں بار آپ استعمال کرتے ہیں اور وہ آپ کے ہاتھوں میں آتا ہے۔
سائنس دانوں نے موبائل کے جو ٹیسٹ کیے ہیں ان سے یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ موبائل فون کی سطح پر کرونا وائرس دو سے تین دن تک زندہ رہ سکتا ہے اور اسے چھونے سے وہ انسانی جسم میں منتقل ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف موبائل فون ہی نہیں بلکہ پلاسٹک اور سٹین لیس سٹیل سے بنی ہوئی تمام اشیا پر وائرس دو سے تین دن تک موجود رہ سکتا ہے۔
بیماریوں پر کنٹرول اور بچاؤ کے امریکی ادارے سی ڈی سی پی نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے موبائل فون، کمپیوٹر کا کی بورڈ اور ٹیبلٹ سمیت استعمال میں آنے تمام ہائی ٹیک آلات کو روزانہ باقاعدگی سے صاف کریں اور اس کے لیے جراثیم کش سپرے وغیرہ کا ستعمال کریں۔
پانی یا اسی طرح کے کسی مائع سے موبائل فون صاف کرنے سے اسے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس کی صفائی میں یہ احتیاط کریں کہ نمی فون کے اندر نہ جانے پائے کیونکہ اس سے وہ خراب ہو سکتا ہے۔ اسے صاف کرتے وقت نرم کپڑا استعمال کریں تاکہ اس کی سطح پر خراشیں نہ آئیں۔
کرونا وائرس: فلم فروزن ٹو جلد ریلز کرنے کا فیصلہ
والٹ ڈزنی کمپنی نے اپنی نئی اینی میٹڈ فلم فروزن ٹو مقررہ وقت سے کئی مہینے پہلے ریلز کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ان خاندانوں کو جنہیں کرونا وائرس کے باعث اپنا زیادہ تر وقت گھر میں گزارنا پڑ رہا ہے، اس فلم کا لطف اٹھا سکیں۔ کمپنی کا خیال ہے کہ لوگوں کے بڑے پیمانے پر گھر موجود ہونے سے اسے کہیں زیادہ ناظرین مل سکیں گے۔
ڈزنی اپنی یہ نئی فلم ڈزنی پلس چینل پر سٹریم کرے گا۔
جمعے کے روز ڈزنی کے ایک اعلان میں کہا گیا ہے کہ فلم 'فروزن ٹو' کی سٹریمنگ ڈزنی پلس پر اتوار سے شروع کی جا رہی ہے، جب کہ معمول کے حالات میں یہ تین مہینے بعد ریلز کی جانی تھی۔
کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور نیدرلینڈز میں فیروزن ٹو کی سٹریمنگ منگل سے شروع کی جا رہی ہے۔
کرونا وائرس کی وجہ سے ڈزنی سمیت کئی کمپنیوں نے اپنی نئی فلموں کی ریلز ملتوی کر دی ہے۔ ان میں سے کچھ فلمیں مارچ اور اپریل میں ریلز ہونا تھیں مگر کچھ تھیٹرز بند کر دیے گئے ہیں، کیونکہ صحت سے متعلق حکام نے ہدایات جاری کی ہیں کہ وائرس کے خطرے کے پیش نظر اجتماع سے گریز کیا جائے۔
فلم کمپنیاں اپنی نئی فلمیں پہلے سینما گھروں میں ریلز کرتی ہیں جس کے بعد انہیں سٹریمنگ پر ڈال دیا جاتا ہے۔