ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے بچنے کے لیے اٹھائے جانے والے حفاظتی انتظامات جیسے ماسک پہننا، سماجی دوری اور ہاتھوں کو دھونے جیسے اقدامات ویکسین آنے کے بعد بھی برقرار رہیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین 100 فی صد مفید نہیں ہو گی۔
وانڈربلٹ یونی ورسٹی میڈیکل سینٹر میں وبائی امراض کے پروفیسر ولیم شافنر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران بتایا کہ "ویکسین وائرس کے خلاف زرہ بکتر نہیں ہو گی۔"
ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمی انفلوئینزا کے لیے استعمال ہونے والی ویکسین حالیہ برسوں میں 60 فی صد تک کامیاب رہی ہے جب کہ اس دوران اس کی افادیت 10 فی صد بھی رہی ہے۔
امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے کرونا وائرس کی ویکسین کے مفید ہونے کا معیار کم سے کم 50 فی صد رکھا ہے۔
ایف ڈی اے کے لیے ماضی میں کام کرنے والے چیف سائنس دان جیسی گڈمین کے بقول جزوی طور پر مفید ویکسین زیادہ خطرے والے طبقات کے لیے سود مند ہو گی۔ جیسے فرنٹ لائن ورکر جو اسپتالوں میں کام کر رہے ہیں یا جنہیں صحت کی تکالیف ہیں۔ مگر یہ تمام آبادی کے لیے مفید نہیں ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ "ظاہر ہے کہ ایسی ویکسین آپ 30 کروڑ افراد کو نہیں دیں گے۔ سب کو ویکسین دے بھی دی گئی تو بھی وائرس کے خلاف مناسب مدافعت موجود نہیں ہو گی جو وائرس کو پھیلنے سے روک سکے۔"
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ جزوی طور پر کارآمد ویکسین بھی اس طرح کافی مفید ہو سکتی ہے کہ جو لوگ کرونا وائرس سے متاثر ہوں ان کی علامات زیادہ شدید نہ ہوں اور انہیں اسپتال نہ جانا پڑے۔
مثلاً جو لوگ فلو کی ویکسین لیتے ہیں انہیں فلو ہو بھی جائے تو ان کی علامات زیادہ شدید نہیں ہوتی ہیں۔
مگر گڈمین کے مطابق دوسری طرف "یہ خطرہ ہے کہ جن لوگوں کو ویکسین لگ چکی ہو وہ غیر ارادی طور پر وائرس پھیلانے کا سبب بن رہے ہوں۔"
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسی ویکسین جو لوگوں کو بیمار ہونے سے تو بچائے مگر وائرس کے پھیلاؤ کو نہ روکے ایک خطرناک صورتِ حال کا باعث بن سکتی ہے۔
ایسی ویکسین ایسا مدافعتی ردِعمل پیدا کرتی ہے جس سے علامات تو نظر نہیں آتیں مگر وائرس مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا۔
یونی ورسٹی آف پٹس برگ کے سینٹر فار ویکسین ریسرچ کے ڈائریکٹر پاؤل ڈپریکس کا کہنا ہے کہ یہ ویکسین بچوں، بڑوں، اور بوڑھوں پر کیسے اثر کرتی ہے اس میں بہت زیادہ فرق ہو گا، جیسے انفلوئینزا کی ویکسین معمر افراد پر زیادہ کارآمد نہیں ہوتی۔
ان کے بقول جن افراد کو صحت کے دیگر مسائل ہوتے ہیں، ان کے بارے میں بھی یہ دیکھنا پڑے گا کہ ان پر ویکسین بہتر اثر کرتی ہے یا ان کے لیے مضر ہوتی ہے۔ یہی صورتِ حال مختلف نسلی گروہوں سے متعلق ہوگی۔
پاؤل ڈپریکس کہتے ہیں کہ "ہم لوگ اپنے ماسک کب اتار سکتے ہیں اس بات پر منحصر ہے کہ کتنے افراد کو ویکسین کی خوراک مل چکی ہے۔"
اس معاملے میں ہدف یہ ہے کہ اتنے افراد کو ویکسین مل جائے کہ وائرس کو کسی کو متاثر کرنے کے لیے لوگ ڈھونڈنے مشکل ہو جائیں۔ اس حالت کو ’ہرڈ امیونٹی‘ کہتے ہیں۔
لیکن امریکہ میں عوامی جائزے کہتے ہیں کہ ویکسین کے آتے ہی اس کی خوراک لینے کے خواہش مند افراد میں کمی آتی جا رہی ہے۔
ایک سروے میں 50 فی صد افراد نے یہ جواب دیا کہ وہ ویکسین نہیں لیں گے۔
یونی ورسٹی آف کولوراڈو میں کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر ڈینئل لاریمور نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "ہم شاید اب ایسے مقام پر آگئے ہیں کہ ہم اب ہرڈ امیونٹی پیدا کرنے کے قابل نہیں رہے۔ اس لیے شاید ہمیں باقی حفاظتی اقدامات جاری رکھنے پڑیں گے۔"
اُن کے بقول جب ویکسین دستیاب ہو گی تب بھی ماسک پہننا زیادہ بہتر ہو گا کیوں کہ سائنس دان نہیں جانتے کہ یہ ویکسینز کتنے عرصے تک کارآمد رہیں گی۔
لاریمور کے بقول "ہمیں نہین پتا کہ یہ مدافعت تین سال رہتی ہے یا پانچ یا دس سال۔‘‘
کووڈ-19 جس کرونا وائرس کی قسم سے تعلق رکھتا ہے، اس سے ملتے جلتے دیگر کرونا وائرس عام بخار کا سبب بنتے ہیں۔ ان کی وجہ سے جسم میں جو قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے وہ چند ماہ سے دو برس تک ہی ہوتی ہے۔
یونی ورسٹی آف پٹس برگ کے پاؤل ڈپریکس کہتے ہیں کہ "ہم یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ اگر وائرس لمبے عرصے تک مدافعت پیدا نہیں کر سکتا تو اس کی ویکسین بھی لمبے عرصے تک مدافعت پیدا نہیں کرے گی۔"
اس لیے ماہرین کا خیال ہے کہ اگلے برس ویکسین کے آنے کے بعد بھی ماسک اتارنا دانش مندی نہیں ہو گی۔
ماہرین کے مطابق اس کے بعد بھی کرونا وائرس مکمل طور پر ختم نہیں ہوگا بلکہ کووڈ 19 ایک مستقل عوامی صحت کا مسئلہ بنا رہے گا۔
گڈمین کے مطابق "اگر آپ شرط لگانے کے عادی ہیں تو آپ شرط لگا سکتے ہیں کہ یہ وائرس مکمل طور پر کبھی نہیں ختم ہو گا۔ لیکن نظامِ قدرت میں انہونی بھی ہوتی رہتی ہے۔"