جلد پر نام یا کوئی نقش گدوانے کے عمل کو ٹیٹو کہا جاتا ہے۔ امریکہ میں یہ رواج نیا نہیں ہے۔ پہلے تو یہ جنگ پر جانے والے فوجیوں، ملاحوں، بائیکرز اور ٹرک ڈرائیوروں سے منسوب تھا۔ لیکن، پھر یہ اس ایج گروپ میں مقبول ہونا شروع ہوگیا جو کسی بھی ٹرینڈ کو آسمان پر چڑھا سکتے ہیں، یعنی 'ٹین ایجرز'۔
ایک رپورٹ کے مطابق، 18 سے 40 سال کی عمر کے ہر تین میں سے، ایک، امریکی کے جسم پر ٹیٹو گدا ہوا ہوتا ہے۔ مقبولیت کے ساتھ ساتھ شہروں کے فیشن ایبل علاقوں میں انتہائی مہنگے ٹیٹو پارلرز کھلنے شروع ہوئے، جنہیں بہت سے ضوابط پر عمل کرنے کی صورت میں ہی لائسنس ملتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ تنگ و تاریک گلیوں میں بہت سے پارلرز غیر قانونی طور پر بھی یہی کام کرتے ہیں۔
بہرحال، اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔ کووڈ۔19 نے یہ تو واضح کر دیا کہ امریکہ میں کرونا وائرس جیسی امرجنسی سے نمٹنے کیلئے، ہنگامی نوعیت کے بنیادی طبی سازو سامان کی کمی ہے، جیسا کہ محفوظ رکھنے والے ماسک، دستانے اور گاؤن۔
اور اب میڈیکل کمیونیٹی نے ان کے حصول کے لئے ، 'ٹیٹو پارلرز' سے رابطہ کرنا شروع کیا ہے۔ چونکہ اس صنعت میں کیمیکلز استعمال ہوتے ہیں، اس لئے ان پارلرز میں ہیوی ڈیوٹی ماسک، دستانے اور گاؤن وافر تعداد میں اسٹاک ہوتے ہیں۔
ریاست الابامہ کے شہر برمنگھم میں ایسے ہی ایک پارلر کا نام ہے، 'کلاؤڈ نائین'۔
اس کی مالک کیری ہیننگ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک مقامی اسپتال نے ان سے رابطہ کیا اور بتایا کہ انہیں پروفیشنل گاؤنز، دستانوں اور ماسک کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے ایک لمحہ سوچے بغیر حامی بھر لی۔"ہم اپنے اسپتالوں اور کارکنوں کی جو بھی مدد کریں گے، وہ ہر ایک کی مدد ہوگی۔ یہ چیزیں ہمارے ہیلتھ ورکرز کو صحت مند رکھیں گی اور بیماری کی صورت میں وہ ہماری مدد کے لئے موجود ہونگے۔"
ایمرجنسی میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انہیں معمول کے حالات کے مقابلے میں اس وقت بہت زیادہ تعداد میں ان اشیا کی ضرورت ہے۔ بقول ان کے، ہر ایک مریض کی آمد پر صرف ڈاکٹروں کو ہی نہیں بلکہ نرسنگ اور ٹیکنیکل اسٹاف کو بھی ان حفاظتی اشیا کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ چوکسی ہی بیماری کے پھیلاؤ کو روک سکتی ہے۔
کیری کہتی ہیں کہ وقت ضائع کئے بغیر انہوں نے یہ تمام میڈیکل سپلائز پیک کیں اور اسپتال بھیج دیں۔"ھمارے دروازے تو بند ہیں۔ اس لئے اس سے بہتر کیا کام ہو سکتا ہے کہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت کو پورا کریں۔"
ان کا کہنا ہے کہ 'باڈی آرٹ انڈسٹری' میں ہم دستانوں اور دیگر طبی اشیا کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اب یہ سب ہم ہوسپٹلز کو پیش کر سکتے ہیں۔
پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دوسرے ملکوں میں بھی ٹیٹو پارلر موجود ہیں۔ اس آرٹیکل میں ایک فوٹو افغانستان کی ایک ٹیٹو آرٹسٹ کا ہے۔ افغانستان کے قدامت پرست معاشرے میں ایک خاتون ثریا شہیدی نے کابل میں 'آہو' کے نام سے موبائل ٹیٹو شاپ کا آغاز کیا تھا۔ اور وہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے اپنے کلائنٹس سے رابطہ رکھتی ہیں۔
پاکستان، بھارت اور دیگر ملکوں میں اور بھی بہت سے شعبے، مثلاً کنسٹرکشن کمپنیاں، بیوٹی پارلرز، مکینک اور ہئیر ڈریسرز ان تمام چیزوں کا استعمال کرتے ہیں جو اداروں کو عطیہ کی جا سکتی ہیں۔