رسائی کے لنکس

کراچی ضمنی انتخاب: پیپلز پارٹی کے سوا تمام جماعتوں کا ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا بائیکاٹ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

کراچی سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 249 کے ضمنی انتخاب میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا معاملہ متنازع ہو گیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور کالعدم تحریکِ لبیک پاکستان کے سوا تمام جماعتوں نے گنتی کے عمل کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے امیدوار مفتاح اسماعیل کی درخواست پر جمعرات کو گورنمنٹ ٹیکنیکل کالج سائٹ ایریا میں ریٹرننگ افسر (آر او) کے دفتر میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا عمل شروع ہوا۔

اس موقع پر بعض تھیلوں پر مبینہ طور پر سیل موجود نہیں تھی جس پر امیدواروں کی بڑی تعداد نے احتجاج کیا اور گنتی کے عمل کا بائیکاٹ کر دیا۔

یہ بائیکاٹ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار مفتاح اسماعیل، ایم کیو ایم کے حافظ مرسلین، تحریک انصاف کے امجد شاہ آفریدی اور پی ایس پی کے سید مصطفیٰ کمال سمیت نو امیدواروں کی جانب سے کیا گیا ہے۔

احتجاج کرنے والے امیدواروں نے ایک درخواست پر دستخط کر کے الیکشن کمیشن میں جمع کرا دی ہے جس میں ضمنی انتخاب کو کالعدم قرار دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

یاد رہے کہ 29 اپریل کو مذکورہ نشست پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں غیر سرکاری نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر خان مندوخیل نے 15 ہزار 156 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی تھی اور مسلم لیگ ن کے مفتاح اسماعیل 683 ووٹوں کے فرق سے 15 ہزار 473 ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر تھے۔

تاہم مفتاح اسماعیل کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے یکم مئی کو پیپلز پارٹی کے امیدوار کی کامیابی کا نوٹی فکیشن روکتے ہوئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا حکم دیا تھا۔

جمعرات کو ووٹوں کی گنتی کے معاملے پر تنازع سامنے آنے کے بعد آر او کے دفتر کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ وہ الیکشن کمیشن کی جانب سے دوبارہ گنتی کے احکامات کی روشنی میں یہاں آئے تھے لیکن آر او نے الیکشن فارم 45 اور 46 دینے سے انکار کر دیا۔

ان کے بقول، "کمیشن حکام نے بیلٹ پیپرز کا مکمل آڈٹ کرنے سے انکار کیا اور غیر استعمال شدہ بیلٹس کو بھی گننے کی اجازت نہیں دی جب کہ حکام نے فارم 45 پر تمام پولنگ اسٹیشنز کے پریزائیڈنگ آفیسرز کے دستخط دکھانے پر رضا مندی ظاہر نہیں کی۔"

مفتاح اسماعیل نے دعویٰ کیا کہ ریٹرننگ افسر کے پاس موجود پولنگ بیگز بھی سیل بھی موجود نہیں تھی اور پوچھنے پر بتایا کہ شاید یہ گر گئی ہے۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر خان مندوخیل کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو تسلیم کرنا تمام سیاسی جماعتوں پر لازم ہے۔

این اے 249 میں تحریک انصاف کے امیدوار امجد آفریدی نے بھی الیکشن کمیشن میں ڈالے گئے ووٹوں کے فرانزک آڈٹ کرانے کی درخواست جمع کرا دی ہے۔

امجد آفریدی کا کہنا ہے کہ وہ فرانزک آڈٹ کے لیے آنے والے تمام اخراجات برداشت کرنے کو تیار ہیں۔

انہوں نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ جب تک فرانزک آڈٹ کا نتیجہ نہ آئے اس وقت تک کامیاب امیدوار کا اعلان نہ کیا جائے۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ انہیں سمجھ نہیں آئی کہ آخر ریٹرننگ افسر نے ریکارڈ دکھانے میں کیوں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ2017 کی سیکشن 95 کے تحت بائیکاٹ کرنے والے امیدواروں کا مطالبہ جائز لگتا ہے۔

کنور دلشاد کے بقول فارم 45 میں ہر پولنگ اسٹیشن میں امیدواروں کی جانب سے حاصل کردہ ووٹوں کی کُل تعداد درج ہوتی ہے جب کہ فارم 46 میں پریزائیڈنگ افسر کو جاری ہونے والے اور باقی بچ جانے والے بیلٹ پیپرز کی تفصیلات درج ہوتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب الیکشن کمیشن نے دوبارہ گنتی کا حکم دے دیا تو بیگ میں موجود ان تفصیلات کو جانچنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔

کنور دلشاد کہتے ہیں کہ معاملہ اگر حل نہ ہوا تو پھر متاثرہ فریق الیکشن ٹریبونل کا رُخ کرسکتے ہیں جو ایک پیچیدہ اور طویل عمل ہوتا ہے اور اس کا دوسرا فریق فائدہ اُٹھاتا ہے۔

اُن کے بقول اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے بعد ٹریبونل کے فیصلے سامنے آرہے ہوتے ہیں جس کے بعد متاثرہ فریق کے پاس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

ادھر مسلم لیگ (ن) نے ایک اور درخواست دائر کرتے ہوئے گنتی کے عمل کو روکنے کی درخواست کر دی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے مطابق اس میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جا رہے جب کہ دوسری جانب تحریکِ انصاف کے امیدوار امجد آفریدی نے پولنگ کے پورے عمل کو غیر شفاف قرار دیتے ہوئے حلقے میں دوبارہ پولنگ کی درخواست دائر کر دی ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG