کراچی کے علاقے طارق روڈ پر واقع مدینہ مسجد کو گرانے کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے بعد شہر میں سرکاری اراضی پر غیر قانونی تعمیرات کا مسئلہ ایک بار پھر زیرِ بحث ہے۔ لیکن اس بار یہ مسئلہ بھی بحث میں شامل ہو گیا ہے کہ ایسی مسجد کی شرعی حیثیت کیا ہے جو کسی غیر قانونی زمین یا رفاہی پلاٹ پر بنائی گئی ہو۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں کراچی تجاوزات کیس کی سماعت کرنے والے بینچ نے 28 دسمبر 2021 کو کراچی کے معروف کاروباری علاقے طارق روڈ پر واقع دل کشا پارک کی اراضی بحال کرانے کا حکم دیا تھا جہاں اس وقت مدینہ مسجد واقع ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق مدینہ مسجد کو جس 1100 گز زمین پر تعمیر کیا گیا ہے وہ مفادِ عامہ کے حامل دل کشا پارک کی ہے۔ لیکن مدینہ مسجد انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ مسجد کی تعمیر کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے تھے جس کے بعد پارک کی زمین پر مسجد قائم کی گئی۔
مذہبی اسکالرز اور علما کے مطابق قبضہ کی گئی زمین پر مسجد بنانا شرعی طور پر جائز نہیں ہے۔ لیکن مدینہ مسجد سے متعلق جن علما سے وائس آف امریکہ نے بات کی ان کا کہنا تھا کہ چوں کہ یہ زمین قبضہ کی گئی نہیں ہے اس لیے اس پر شریعت کے اس اصول کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مفتی محمد زبیر کہتے ہیں کہ شریعت کا یہ اصول طے شدہ ہے کہ قبضے کی زمین پر مسجد تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ لیکن مدینہ مسجد کے معاملے کے کئی دیگر قانونی اور شرعی پہلو بھی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مدینہ مسجد کی تعمیر کی قانونی دستاویزات موجود ہیں، متعلقہ اداروں نے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) جاری کیا اور نقشہ منظور کیا جس کے چالان بینکوں میں جمع کرائے گئے۔ اس لیے مدینہ مسجد پر قبضے کی زمین پر تعمیر کا اصول نافذ نہیں ہوتا۔
مفتی زبیر کے بقول ایسی مسجد جس کی تعمیر کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے ہوں وہ شرعی مسجد کے زمرے میں آتی ہے اور اسے مسمار کرنے کا حکم جاری کرنا خلافِ آئین و شریعت ہے۔
البتہ معروف مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی کہتے ہیں کہ زمین کسی فرد کی ہو یا حکومت کی، اسے خلافِ قانون استعمال میں نہیں لایا جا سکتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے جاوید غامدی نے کہا کہ مسجد کی تعمیر کی دو ہی صورتیں ہیں: یا تو کوئی جگہ خرید کر اس پر مسجد تعمیر کی جائے یا حکومت سے اجازت لے کر مسجد بنائی جائے۔
انہوں نے واضح کیا کہ جگہ پر ناجائز قبضہ کر کے تعمیر کی گئی مسجد کو مسجد کہنا ہی دینی لحاظ سے جائز نہیں، اس لیے ایسی تعمیر کو گرانے میں کوئی قباحت نہیں۔
مدینہ مسجد پر اعتراض کیا ہے؟
مدینہ مسجد کی انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ دل کشا پارک کی زمین پر 1980 میں مسجد کی بنیاد رکھی گئی تھی جو ٹرسٹ کے زیرِ انتظام ہے۔ یہ ٹرسٹ مسجد کی بنیاد رکھنے کے دو برس بعد 1982 میں حکومتِ پاکستان سے رجسٹرڈ کرایا گیا تھا۔
مسجد کا انتظام سنبھالنے والے ٹرسٹ کے چیئرمین حافظ عبدالرحمٰن شاہجہان کا کہنا ہے کہ انہوں نے عدالت میں اپنا مؤقف پیش کیا تھا کہ تمام قانونی تقاضوں کے بعد مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ ان کے بقول، "ہمارا مؤقف یہی ہے کہ مسجد اللہ کا گھر ہے جسے گرایا نہیں جا سکتا۔"
مدینہ مسجد کے معاملے میں اب تک انتظامیہ کی جانب سے نوٹس جاری کرنے کے علاوہ مسجد کو گرانے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے منگل کو مدینہ مسجد کے کیس کی سماعت کے دوران مسجد کو مسمار کرنے کے اپنے حکم پر نظرِ ثانی کی اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس میں کہا تھا کہ عدالت نے اپنے فیصلے واپس لینا شروع کیے تو انسدادِ تجاوزات کے خلاف جاری کارروائی کا کیا فائدہ ہو گا؟
کراچی میں شہری امور پر تحقیق کرنے والے ادارے 'کراچی اربن لیب' سے وابستہ سینئر محقق محمد توحید کہتے ہیں کہ کسی بھی رہائشی سوسائٹی میں رفاہی مقاصد کے لیے زمین کا مقصد لوگوں کو کھلے مقامات تک رسائی دینا ہوتا ہے جہاں انہیں پارک، میدان، مارکیٹس اور عبادت گاہیں میسر آسکیں۔
محمد توحید کے مطابق مسئلہ اُس وقت آتا ہے جب شہر کے ماسٹر پلان اور نقشوں کو چھپایا جاتا ہے۔ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے بدعنوان عناصر کو زمینوں کو ہتھیانے یا انہیں اس کے اصل مقصد کے برعکس استعمال کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
شہری امور کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کی فعال رکن نے حال ہی میں وائس آف امریکہ کے محمد ثاقب سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی، بلدیہ عظمیٰ کراچی یا کسی بھی ادارے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ زمین کے کسی ٹکڑے کو کسی سوسائٹی کے منظور شدہ ماسٹر پلان کے برعکس الاٹ کرے اور یہی نکتہ سپریم کورٹ کے حکم میں بھی اٹھایا گیا ہے۔
ماضی میں سندھ پولیس کے افسران بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ شہر میں سینکڑوں مساجد اور امام بارگاہیں تجاوزات کر کے قائم کی جا چکی ہیں جنہیں ہٹانا اب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بس کی بات نہیں۔
مدینہ مسجد کا جامعۂ بنوری ٹاؤن سے کیا تعلق ہے؟
مدینہ مسجد ٹرسٹ نے 1997 میں مسجد کا الحاق دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے کراچی کے ایک معروف مدرسے جامعہء علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے منسلک 'علامہ بنوری ٹرسٹ' سے کر دیا تھا۔
وائس آف امریکہ کے اس سوال پر کہ کیا ٹرسٹ کو مدینہ مسجد کی متنازع حیثیت کا علم تھا، علامہ بنوری ٹرسٹ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر سعید اسکندر نے بتایا کہ کسی مسجد کا ٹرسٹ سے الحاق اسی صورت ممکن ہے جب مسجد رجسٹرڈ ہو اور اس کے پاس مسجد کی تعمیر کے لیے درکار دستاویزات موجود ہوں۔
ان کے خیال میں مدینہ مسجد کے الحاق کی درخواست کے وقت اس کے کاغذات مکمل تھے اور ان میں کوئی بے ضابطگی سامنے نہیں آئی تھی۔
ڈاکٹر سعید نے بتایا کہ بنوری ٹاؤن ٹرسٹ الحاق شدہ مسجد کی انتظامیہ میں کسی بھی تنازع کی صورت میں ثالثی کا کردار ادا کرتا ہے اور اس کے علاوہ الحاق شدہ مسجد کی انتظامیہ اپنے مالی امور سے متعلق آڈٹ سے ٹرسٹ کو آگاہ کرنے کی پابند ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر الحاق کے وقت کوئی محلے دار یا بازار کے دکان دار کوئی اعتراض اٹھاتے ہیں تو وہ ایسی مسجد کا الحاق نہیں کرتے اور مدینہ مسجد کے معاملے میں کسی مرحلے پر ایسا کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا تھا۔
سپریم کورٹ کا مدینہ مسجد کو مسمار کرنے کا حکم آنے کے بعد مسجد کے ٹرسٹ نے جامعہ بنوری ٹاؤن سے ایک فتویٰ بھی حاصل کیا ہے جس پر مذکورہ مدرسے کے پانچ مفتیوں کے دستخط موجود ہیں۔
یکم جنوری 2022 کو جاری کردہ اس فتوے کے مطابق جو جگہ ایک بار 'مسجدِ شرعی' بن جاتی ہے، اس کی یہ حیثیت قیامت تک قائم رہتی ہے۔ فتوے کے مطابق ایسی کسی مسجد کی ایک انچ برابر جگہ کو گرانا یا اس کی حیثیت بدلنا شرعاً ناجائز ہے۔
فتوے میں کہا گیا ہے کہ اگر متعلقہ محکمہ یا افسر مسجد کی تعمیر کی اجازت دینے کے لیے قانونی طور پر مجاز نہیں تھا تو حکومت نے متعلقہ محکمے کو ختم بھی نہیں کیا اور ان کی اجازت معتبر نہ ہونے پر کوئی حکم بھی جاری نہیں کیا۔ اس لیے مسجد کو گرانا یا اسے کہیں اور منتقل کرنا یا وہاں پارک بنانا شرعاً ناجائز ہے۔
جامعۂ بنوری ٹاؤن جیسے بااثر مدرسے سے الحاق کی وجہ سے بھی مدینہ مسجد کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر بالخصوص دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے حلقوں کا ردِ عمل آ رہا ہے اور اس مسلک سے تعلق رکھنے والے کئی سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے دھمکی بھی دی ہے کہ اگر عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کیا گیا تو وہ اس کی مزاحمت کریں گے۔
کیا غیر قانونی مسجد بھی مسمار نہیں ہوسکتی؟
دیوبندی مکتبِ فکر کی مرکزی سیاسی جماعت جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اگر غصب شدہ زمین پر مسجد تعمیر ہو بھی جائے تو اسے مسمار نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کا تاوان دیا جا سکتا ہے۔
لیکن جاوید احمد غامدی کہتے ہیں کہ اس طرح کا مؤقف مذہبی جذبات کا اظہار تو ہوسکتا ہے، لیکن یہ کوئی شرعی اصول نہیں ہے۔
ان کے بقول، کسی بھی ملک کی زمین قومی املاک میں شامل ہوتی ہے اور کسی بھی ناگزیر ضرورت مثلاً سڑک وغیرہ کے لیے کسی بھی عمارت کو ہٹایا جاسکتا ہے۔ دنیا میں صرف بیت اللہ، مسجدِ نبوی اور بیت المقدس ایسی تین مساجد ہیں جن کا مقام تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
تعمیرات اور شہری منصوبہ بندی کے ماہر اور سماجی محقق عارف حسن کا کہنا ہے کہ کئی مرتبہ صاحبِ اختیار حضرات کو اندازہ ہو بھی جاتا ہے کہ کسی زمین پر غیر قانونی طور پر مسجد بنائی جا رہی ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس کی اجازت دے دیتے ہیں۔
عارف حسن کا کہنا ہے کہ زمینوں کی ریگولرائزیشن نہ ہونے کی وجہ سے جہاں دیگر غیر قانونی تعمیرات ہوتی ہیں وہیں مساجد بھی تعمیر ہو جاتی ہیں۔ اس لیے غیر قانونی تعمیرات چاہے شہریوں نے کی ہوں یا حکومت نے، ان کا خاتمہ یک دم نہیں ہوسکتا۔
عارف حسن کے نزدیک تجاوزات کا مسئلہ حل کرنے کے لیے سب سے پہلے تمام غیر قانونی تعمیرات کی فہرست تیار ہونی چاہیے جس کے بعد پانچ سے دس سالہ منصوبے کے تحت بتدریج ایسی تعمیرات کا خاتمہ ہونا چاہیے جو شہریوں کے مفاد میں رکاوٹ بن رہی ہوں۔
ان کا کہنا ہے کہ جن تعمیرات سے مفادِ عامہ پر کوئی زد نہ آتی ہو تو انہیں ریگولرائز کر دینا چاہیے۔
سپریم کورٹ مدینہ مسجد کے کیس کی مزید سماعت 13 جنوری کو دوبارہ کرے گی۔ گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے یہ کہا تھا کہ وہ مسجد گرانے کا حکم تو واپس نہیں لے گی، البتہ وہ اتنی مہلت دے سکتی ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے مسجد کو متبادل جگہ فراہم کرنے تک مسجد نہ گرائی جائے۔
’زمین کی قانونی حیثیت تبدیل نہیں ہو سکتی‘
ٹاؤن پلانر اور سابق ایڈمنسٹریٹر بلدیہ کراچی فہیم زمان کہتے ہیں کہ سرکاری محکموں کے اپنے اپنے اختیارات ہوتے ہیں اور اگر کوئی سرکاری افسر اپنی حیثیت میں کوئی غلط یا غیر قانونی فعل کرتا ہے تو اس کا فعل قانونی نہیں ہو جاتا۔
ان کے مطابق اگر کسی افسر نے پارک کی زمین پر مسجد کی تعمیر کا این او سی جاری بھی کیا تھا تو یہ غیر قانونی فعل ہے جس کے خلاف ایکشن ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے قانون کے مطابق ایک حکم جاری کیا ہے جسے متنازع نہیں بنانا چاہیے اور صوبائی حکومت کو اس پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔
لیکن کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ علوم اسلامی کے پروفیسر ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی کہتے ہیں کہ آئینِ پاکستان کے مطابق ریاست کا کام عوام کو سہولت فراہم کرنا ہے۔ اگر کسی علاقے کے عوام یہ کہہ رہے ہوں کہ انہیں اس جگہ پر پارک نہیں مسجد کی ضرورت ہے تو جمہوری اصول کے مطابق یہ حق تسلیم کرلینا چاہیے۔
مذہبی اسکالر جاوید غامدی کہتے ہیں کہ مدینہ مسجد کے معاملے میں سپریم کورٹ کو مقامی لوگوں کی بات سننی چاہیے۔ سپریم کورٹ ملک کی آخری عدالت ہے اگر وہ انتظامی امور میں براہِ راست احکامات دے گی تو لوگ داد رسی کے لیے کہاں جائیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ مدینہ مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کے احکامات میں طریقۂ کار پر تحفظات کا اظہار کیا جاسکتا ہے، لیکن دینی اعتبار سے اصول وہی رہے گا کہ زمین پر ناجائز قبضہ کر کے مسجد تعمیر نہیں کی جاسکتی۔
جاوید غامدی کے خیال میں کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے اصول ایک ہی ہونا چاہیے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ اسلام آباد میں کسی اور اصول کا اطلاق ہو اور کراچی میں کسی اور کا۔
'مسجد کی تعمیر کا کوئی مکینزم ہی موجود نہیں'
مفتی محمد زبیر کے خیال میں اس طرح کی مساجد کی شرعی حیثیت پر سوال اس لیے بھی اٹھتے ہیں کہ پاکستان میں مسجد تعمیر کرنے کے لیے سرکاری طور پر کوئی مکینزم ہی موجود نہیں جس کی وجہ سے سڑکوں پر بھی نماز ادا کی جا رہی ہوتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ باشندوں کے مذہبی فرائض کی ادائیگی کے لیے عبادت گاہوں کا بندوبست کرے۔ اس ضمن میں حکومت نے ملک میں کتنی زمینیں مختص کیں یا کتنی مساجد کا انتظام کیا؟
ماہرِ تعمیرات عارف حسن بھی کہتے ہیں کہ شہر کی جن اسکیموں میں مسجد کے لیے جگہ مختص ہوتی ہے اس کے علاوہ بھی مساجد بن جاتی ہیں۔ گزشتہ 70 برس سے یہ دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ کئی علاقوں میں ضرورت نہ ہونے کے باوجود ایک سے زائد مساجد تعمیر ہوئی ہیں۔
بعض ماہرین کے خیال میں پاکستان میں مساجد کا انتظام افراد اور مدارس سے لے کر وزارتِ مذہبی امور و اوقاف کو دینا چاہیے اور اس وزارت کو عرب ممالک کی طرح مؤثر اور بااختیار بنا کر مساجد کی تعمیرات اور ان کے انتظام کو ریگولرائز کیا جا سکتا ہے۔
البتہ سندھ کے سابق صوبائی وزیرِ اوقاف عبدالحسیب کہتے ہیں کہ نئی مساجد کا قیام وزارتِ اوقاف کے دائرۂ اختیار میں نہیں اور یہ محکمہ صرف وقف کی گئی زمینوں، مساجد و مزارات کا انتظام ہی دیکھتا ہے۔
ان کے بقول رہائشی علاقوں میں مساجد کی تعمیر یا انتظام میں محکمۂ اوقاف کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا البتہ اگر کسی مسجد پر تنازعہ ہوجائے تو محکمہ اس کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔