رسائی کے لنکس

رام مندر کے افتتاح کے معاملے پر تنازع، اپوزیشن اور ہندو مذہبی پیشواؤں کا بائیکاٹ کا اعلان


رام مندر کا باقاعدہ افتتاح 22 جنوری کو وزیرِ اعظم نریندر مودی کریں گے۔
رام مندر کا باقاعدہ افتتاح 22 جنوری کو وزیرِ اعظم نریندر مودی کریں گے۔

ایودھیا میں تعمیر ہونے والے رام مندر کے افتتاح کا معاملہ اب ایک تنازعے میں تبدیل ہو گیا ہے۔ جہاں حزبِ اختلاف کی بیشتر جماعتیں اس کا بائیکاٹ کر رہی ہیں تو وہیں ہندو مذہب کے چاروں بڑے پیشواؤں یعنی شنکر آچاریوں نے بھی اس تقریب کی مخالفت اور اس میں عدم شرکت کا اعلان کیا ہے۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی 22 جنوری کو رام مندر میں رام کی مورتی نصب کر کے اس کا افتتاح کریں گے۔ اس کی بڑے پیمانے پر تیاری کی گئی ہے اور اصل تقریب کے علاوہ بھی متعدد پروگراموں کا اعلان کیا گیا ہے۔

بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس نے بدھ کو ایک بیان جاری کر کے اسے حکمراں ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) اور اس کی نظریاتی سرپرست تنظیم ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (آر ایس ایس) کا سیاسی منصوبہ قرار دے کر اس میں عدم شرکت کا اعلان کیا ہے۔

'یہ بی جے پی کا سیاسی منصوبہ ہے'

خیال رہے کہ مندر تعمیر کرنے والے ’رام مندر تیرتھ شیترا‘ کی جانب سے کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے، سابق صدر سونیا گاندھی اور سینئر رہنما ادھیر رنجن چودھری کو افتتاحی تقریب میں شرکت کا دعوی نامہ ارسال کیا گیا تھا۔

کانگریس کے سینئر رہنما جے رام رمیش کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مذہب ایک ذاتی معاملہ ہے۔ لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس نے طویل عرصے سے ایودھیا میں مندر کو ایک سیاسی پراجیکٹ بنا رکھا ہے۔ مندر کے افتتاح کا مقصد بھی اس سے سیاسی فائدہ اٹھانا ہے۔

متعدد اپوزیشن جماعتوں جیسے کہ بائیں بازو، ترنمول کانگریس، شیو سینا اودھو گروپ وغیرہ نے تقریب کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔

کانگریس کی جانب سے افتتاحی تقریب میں عدم شرکت کے اعلان کے بعد بی جے پی کے متعدد رہنماؤں نے اس پر شدید تنقید کی ہے۔ بی جے پی کے ترجمان نلن کوہلی سمیت متعدد رہنماؤں نے کانگریس کو ہندو مخالف قرار دیا اور اس کا موازنہ راون سے کیا۔

انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ کانگریس کے اس فیصلے پر کوئی حیرت نہیں۔ کیوں کہ اس نے رام کو ایک خیالی کردار قرار دیا تھا۔ اس نے اسی مقام پر بابری مسجد کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا۔ ان کے بقول اب کانگریس نے رام کا بائیکاٹ کیا ہے۔ لہٰذا 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں عوام اس کا بائیکاٹ کریں گے۔

بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ منوج تیواری نے اپوزیشن کے اس الزام پر کہ بی جے پی رام مندر کا استعمال سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے کر رہی ہے، کہا کہ اگر رام کا نام لینے سے سیاسی فائدہ ہوتا ہے تو بی جے پی ان کے نام کا استعمال کر سکتی ہے۔

بی جے پی کے ترجمان جے ویر شیرگل کا کہنا ہے کہ کانگریس کا بائیکاٹ کرنا کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مقصد سے یہ اعلان کیا ہے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے 2019 میں ایودھیا تنازع کا فیصلہ سناتے ہوئے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لیے دے دی تھی۔ اس نے کسی مناسب مقام پر مسجد کی تعمیر کے لیے پانچ ایکڑ اراضی دینے کی بھی ہدایت کی تھی جو کہ ایودھیا کی سرحد سے تقریباً باہر دی گئی ہے اور جہاں ابھی مسجد کی تعمیر کا آغاز بھی نہیں ہو سکا ہے۔

سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل دیے جانے والے ٹرسٹ ’رام مندر تیرتھ شیترا‘ کی جانب سے مندر کی تعمیر کی جا رہی ہے۔ مندر تعمیر کا افتتاح وزیرِ اعظم نے زمین کی پوجا کر کے کیا تھا۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے ایودھیا میں رام مندر کے معاملے کو ہمیشہ اپنے انتخابی منشور میں شامل رکھا۔ اس نے ماضی میں بھی اس سے سیاسی فائدہ اٹھایا ہے اور ایک بار پھر اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

دہلی یونیورسٹی میں استاد پروفیسر اپوروانند کا کہنا ہے کہ یہ پورا معاملہ سیاسی ہے۔ اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ رام مندر کی پوری تحریک ہی سیاسی تھی۔ خود بی جے پی کے کئی بڑے رہنماؤں نے اس کا اعتراف کیا تھا۔

ان کے بقول کانگریس نے اس تقریب میں شریک نہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اب بھی متعدد کانگریسی رہنما رام مندر کی تعمیر کا کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ کانگریس جب تک اپنی بنیاد یعنی سیکولرازم کی طرف واپس نہیں جائے گی اسے سیاسی عروج حاصل نہیں ہو گا۔

ہندو مذہبی پیشواؤں کا بھی بائیکاٹ

اپوروانند نے یہ بھی کہا کہ آج ہندوؤں کے بہت بڑے طبقے میں یہ خیال پختہ ہو گیا ہے کہ بی جے پی اور ’وشو ہندو پریشد‘ (وی ایچ پی) ہی ان کی اصل نمائندہ ہیں۔ یہ بات خود ہندو سماج کے لیے باعث تشویش ہے۔

دریں اثنا ہندو مذہب کے چاروں بڑے مذہبی پیشواؤں نے، جنھیں شنکرآچاریہ کہا جاتا ہے۔ مندر کے افتتاح کی تقریب میں عدم شر کت کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے اسے مذہبی کی بجائے سیاسی تقریب قرار دیا۔

تجزیہ کاروں کے خیال میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں رام کی مورتی کی تنصیب اور اس کے افتتاح نے ہندو مذہبی رہنماؤں کو تقریب میں شرکت نہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔

ندر ٹرسٹ کی جانب سے بی جے پی سے وابستہ متعدد مسلمانوں کو بھی افتتاحی تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ ملا ہے۔ میڈیا میں ایودھیا کے کچھ مسلمانوں کے بیانات شائع ہوئے ہیں جن میں انھوں نے افتتاح کے تعلق سے اپنی خوشی کا اظہار کیا ہے۔

لیکن آسام کے مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت ’آل انڈیا یونائٹڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ‘ (اے آئی یو ڈی ایف) کے صدر اور رکن پارلیمان مولانا بدر الدین اجمل نے آسام کے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ 20 سے 25 جنوری تک ٹرینوں سے سفر نہ کریں۔ ان کے بقول اس درمیان ناخوشگوار واقعات ہو سکتے ہیں۔

ان کے اس بیان پر بعض مسلمانوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق یہ اپیل مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے جیسی ہے۔

ادھر مسلمانوں کو آر ایس ایس سے جوڑنے والی اس کی ایک تنظیم ’مسلم راشٹریہ منچ‘ کے صدر اندریش کمار نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ 22 جنوری کو مسجدوں، درگاہوں، مدرسوں اور مکتبوں میں جے شری رام کا جاپ کریں۔

انھوں نے اس موقع پر مسجدوں میں دیے جلانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ جس کی بعض مقامی مسلم شخصیات کی جانب سے مخالفت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کی جانب سے ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG