رسائی کے لنکس

پرویز مشرف سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ؛ 'اب ڈر رہے گا کہ آرٹیکل چھ لگ بھی سکتا ہے'


سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی سزائے موت برقرار رکھنے کا معاملہ پاکستان میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ بعض حلقے سزا برقرار رکھنے کے فیصلے کی حمایت جب کہ بعض اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کو برقرار رکھنے سے پاکستان میں آئین شکنی کا راستہ بند ہو سکتا ہے۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ سابق صدر پرویز مشرف وفات پا چکے ہیں۔ اس فیصلے کی محض علامتی حیثیت ہے، لہذٰا اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔

سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف 2007 میں ملک میں ایمرجینسی نافذ کرنے پر آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کے لیے 2013 میں خصوصی عدالت تشکیل دی گئی تھی۔ کئی مرتبہ خصوصی عدالت کے جج تبدیل ہونے کے بعد اور مشرف کے عدالت میں پیش نہ ہونے کے باوجود اس کیس کی کارروائی چلتی رہی۔

دسمبر 2019 میں سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کے ججز جسٹس وقار سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے پرویز مشرف کو آئین شکنی کا مجرم قرار دیا۔ خصوصی عدالت میں شامل جج جسٹس نذر اکبر نے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔

عدالت نے فیصلے میں مشرف کے زندہ وطن واپس نہ آنے کی صورت میں ان کی لاش ملک لا کر تین دن کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے لٹکانے کا بھی حکم دیا۔

اس فیصلے کے خلاف اس وقت کی پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے بھرپور ردِعمل دیا اور جسٹس وقار سیٹھ کا یہ فیصلہ لاہور ہائی کورٹ نے معطل کر دیا۔

پاکستان فوج کے اس وقت کے ترجمان لیفٹننٹ جنرل آصف غفور نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے شدید ردِعمل دیا اور پاکستان فوج کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا۔ لیکن اب سپریم کورٹ نے جسٹس وقار سیٹھ کے فیصلے کی توثیق کردی ہے اور پاکستان فوج کی طرف سے تاحال اس پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔

سابق صدر پرویز مشرف کے اہلِ خانہ نے اس کیس کی پیروی نہیں کی اور سپریم کورٹ میں یہ کیس چلنے کے دوران اہلِ خانہ نے اپنے وکیل سلمان صفدر کے ساتھ بھی کوئی رابطہ نہیں کیا۔

ایڈووکیٹ سلمان صفدر نے اس بابت عدالت کو آگاہ کیا کہ اندرون و بیرون ملک تمام دستیاب پتوں پر رابطہ کے باوجود ان کے اہلِ خانہ سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا۔

'فیصلے کی علامتی حیثیت زیادہ ہے'

پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ کسی بھی سابق آرمی چیف کے خلاف ایسا فیصلہ ہے جس کی مثال پاکستان میں ماضی میں موجود نہیں۔

تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ اس فیصلے کی علامتی حیثیت بہت زیادہ ہے کیوں کہ ماضی میں کبھی کسی فوجی آمر کے خلاف ایسا فیصلہ نہیں آیا۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ اس کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ آئین میں موجود آرٹیکل 6 کسی فوجی آمر پر لگا ہے اور اس بات سے سب کو اندازہ ہونا چاہیے کہ آئین میں موجود اس شق کا اطلاق بھی ہو سکتا ہے۔

اُن کے بقول آئین کو ختم کرنے پر موت کی سزا 1973 کے آئین میں دی گئی۔ پاکستان کی عدالتیں نظریۂ ضرورت کے تحت آئین میں تبدیلی کی اجازت دیتی رہی ہیں۔ لیکن اس آئین کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا۔

پرویز مشرف کی زندگی پرایک نظر
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:44 0:00

اُن کے بقول پاکستان میں فوجی سربراہان کی طرف سے حکومت پر قبضے کی کئی مثالیں ہیں۔ لیکن ایسے اقدام پر سزا ملنے کی مثال اور کوئی نہیں ہے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف دونوں اس بارے میں کچھ نہیں کر سکے۔ اس لیے یہ فیصلہ بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اگر کوئی آئین کو توڑنے کی کوشش کرے گا تو آرٹیکل چھ کا اطلاق اس پر کیا جا سکتا ہے۔

اُن کے بقول ہمارے جمہوری نظام میں بہت سی خرابیاں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس بات پر سب متفق ہیں کہ آئین کو برقرار رہنا چاہیے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ جمہوری عمل جاری رہنا چاہیے اور وقت گزرنے کے ساتھ اس میں بہتری ممکن ہو گی۔ یہ فیصلہ صرف آئندہ آنے والے حکمرانوں کے لیے نہیں ہے بلکہ پارلیمان کے لیے بھی ہے کہ ان کے پاس طاقت موجود ہے۔

مظہر عباس نے کہا کہ یہ فیصلہ مشرف کی زندگی میں ہی آیا تھا۔ لیکن اس کیس کے چلنے کے دوران بعض عدالتی اقدامات پر اعتراضات بھی تھے، بہتر ہوتا کہ مشرف کی زندگی میں ہی اس بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آجاتا۔

'سیاست دانوں کو فوج پر غلبے کے بجائے مل جل کر چلنا چاہیے'

تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ اس فیصلے کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ پرویز مشرف کی موت کے بعد ایسے فیصلے دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ماضی میں سیاست دانوں کے خلاف بھی سخت فیصلے آتے رہے ہیں۔ نواز شریف کو نااہل کیا گیا، ان کے خلاف کیسز بنے۔ لیکن آج وہ سب فیصلے واپس ہو رہے ہیں۔ لہذٰا ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ کوئی ڈیٹرنس نہیں ہے کیوں کہ دنیا کے جن ممالک میں بھی جمہوری ادارے کمزور ہوتے ہیں وہاں فوجی مداخلت کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔

حسن عسکری کے بقول سیاست دانوں کو فوج کے اوپر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کے بجائے مل جل کر چلنا چاہیے۔

اُن کے بقول یہ فیصلہ اگر مشرف کی زندگی میں سپریم کورٹ سے بھی آ جاتا تو کوئی فرق نہ پڑتا۔ اس فیصلے کے اس وقت آنے کی کوئی اہمیت اور ضرورت نہیں تھی کیوں کہ اس فیصلے سے فوج کی ناراضگی میں اضافہ ہی ہو گا۔

فورم

XS
SM
MD
LG