ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 249 میں جمعرات کو ضمنی انتخاب کے سلسلے میں پولنگ ہوگی۔ یہ حلقہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکنِ قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر فیصل واوڈا کے سینیٹر بننے کے بعد مستعفی ہونے کی وجہ سے خالی ہوا تھا۔
اس انتخابی معرکے میں مختلف سیاسی جماعتوں سمیت 30 امیدوار مدِ مقابل ہیں جن میں مسلم لیگ (ن) کے مفتاح اسماعیل، پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے سید مصطفیٰ کمال، تحریک انصاف کے امجد اقبال آفریدی، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے حافظ مرسلین جب کہ حال ہی میں کالعدم قرار دی گئی تحریک لبیک کے مفتی نذیر کمالوی اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے قادر خان مندو خیل شامل ہیں۔
سال 2018 کے نتائج کیا رہے تھے؟
عام انتخابات 2018 میں قومی اسمبلی کی این اے 249 کی نشست پر تحریک انصاف کے امیدوار فیصل واوڈا 35 ہزار 349 ووٹ لے کر کامیاب جب کہ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی صدر میاں شہباز شریف 34 ہزار 626 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ دونوں امیدواروں میں صرف 723 ووٹ کا فرق تھا۔ دیگر امیدواروں میں کالعدم ٹی ایل پی کے مفتی عابد حسین کو 23 ہزار 981 ووٹ، ایم کیو ایم کے اسلم شاہ کو 13 ہزار 534 ووٹ، متحدہ مجلس عمل کے سید عطا اللہ شاہ کو 10 ہزار 307 ووٹ، پیپلز پارٹی کے قادر خان مندوخیل کو سات ہزار 236 ووٹ اور پی ایس پی کی ڈاکٹر فوزیہ حمید کو ایک ہزار 617 ووٹ ملے تھے۔
قبل ازیں اس علاقے سے 2013 کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کے سلمان مجاہد بلوچ اور اس سے پہلے 2008 میں پیپلز پارٹی کے عبد القادر پٹیل کامیاب ہوئے تھے۔
اس حلقے میں بلدیہ ٹاون، سعید آباد، رشید آباد، آفریدی کالونی، اتحاد ٹاؤن، مومن آباد، مجاہد کالونی، اسلام نگر، خیبر کالونی، مسلم مجاہد کالونی، گجرات کالونی، گلشن غازی سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔
اس بار کیا نتائج متوقع ہیں؟
کراچی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی مجاہد بریلوی کے خیال میں جمعرات کو ہونے والا یہ مقابلہ یک طرفہ نظر نہیں آتا۔ بلکہ اس میں سیاسی جماعتوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ دیکھنے کی امید ہے۔
انہوں نے کہا کہ مختلف قومیتوں کے رہائشیوں کی وجہ سے کوئی بھی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی، کیوں کہ صورتِ حال کافی پیچیدہ نظر آتی ہے۔ تاہم، ڈسکہ میں ضمنی انتخابات جیتنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کا مورال کافی بلند دکھائی دیتا ہے اور پارٹی کے امیدوار مفتاح اسماعیل نے بھرپور انتخابی مہم چلائی ہے۔ ان کے مطابق جمعیت علماء اسلام (ف) نے اس بار مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور اسی طرح متحدہ مجلس عمل نے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری جانب پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین اور سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال کی انتخابی اکھاڑے میں خود انٹری کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ کا ووٹ بینک رکھنے کے ساتھ دیگر قومیتیوں کی بھی ہمدردیاں حاصل کرنے کی بھرپور کوشش میں لگے رہے ہیں۔
ان کے خیال میں اگرچہ تحریک انصاف کے امیدوار امجد شاہ آفریدی نے بھی بھرپور انتخابی مہم چلائی ہے، لیکن حلقے کے عوام کی بڑی تعداد صوبے میں برسرِ اقتدار پیپلز پارٹی اور وفاق میں برسرِ اقتدار تحریکِ انصاف کی کارکردگی سے خائف دکھائی دیتی ہیں۔ جب کہ حال ہی میں کالعدم قرار دی گئی تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اب بھی حلقے میں اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہے جس میں حالیہ عرصے میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم، مجاہد بریلوی کا کہنا ہے کہ حتمی فیصلہ عوام کے ووٹ سے ہی ہو گا جس میں کسی بھی تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے۔
ادھر حلقے سے الیکشن لڑنے والے امیدواروں کا کہنا ہے کہ وہ منتخب ہوکر اس حلقے کے سب سے اہم مسئلے یعنی پینے کے پانی کی فراہمی کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
اس کے علاوہ حلقے میں پانی کی چوری، سیوریج کے مسائل اور سڑکوں کی بُری صورتِ حال بھی بڑے مسائل میں شمار ہوتے ہیں۔
بلدیاتی ادارے کمزور اور منتخب بلدیاتی قیادت کی عدم موجودگی میں شہریوں کی بڑی تعداد اس طرح کے مسائل کے حل کی توقع قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں پہنچنے والے نمائندوں ہی سے کرتے ہیں۔
بعض دیگر مبصرین کے مطابق ایم کیو ایم کی بھی بھرپور کوشش ہو گی کہ پی ایس پی کے امیدوار مصطفیٰ کمال کی کامیابی کو ہر صورت میں روکا جائے، کیوں کہ ان کی کامیابی کی صورت میں ایم کیو ایم کو مستقبل میں شدید دھچکا لگ سکتا ہے جس کا فائدہ براہِ راست مسلم لیگ (ن) یا تحریکِ انصاف کو ہو گا۔ اس کے لیے ایم کیو ایم نے بھی اپنی انتخابی مہم خوب سرعت کے ساتھ چلائی ہے۔
الیکشن کے لیے تمام تر تیاریاں مکمل
صبح 8 سے شام 5 بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہنے والی پولنگ میں حلقے کے تین لاکھ 39 ہزار 591 ووٹرز حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل ہیں جن میں مرد ووٹرز کی تعداد دو لاکھ ایک ہزار 656 اور خواتین ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 37 ہزار 935 ہے۔
پولنگ کے لیے 276 پولنگ اسٹیشنز اور 796 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے ہیں۔
مجموعی طور پر 2100 سے زائد افراد پر مشتمل انتخابی عملہ اور تین ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکار پولنگ کے عمل کی نگرانی کریں گے۔
محکمۂ داخلہ سندھ نے حلقے کے 276 پولنگ اسٹیشنز میں سے 184 کو انتہائی حساس اور 92 کو حساس قرار دیا ہے۔
پولنگ کے موقع پر پولیس کے ساتھ سندھ رینجرز کے اہلکار بھی سیکیورٹی کے فرائض انجام دیں گے۔
پولیس اور رینجرز اہلکار انتخابی سامان کی وصولی، الیکشن مکمل ہونے کے بعد واپسی تک عملے کے ساتھ رہیں گے۔
پریذائیڈنگ افسران کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پولنگ ایجنٹس کے سامنے فارم 45 کی تصویر لیں گے اور ان ہی کی موجودگی میں آر او کو واٹس ایپ پر فارم 45 کی تصویر بھجیں گے۔
کرونا ایس او پیز کی پابندی لازم قرار
پولنگ کے وقت ریٹرننگ افسر کے دفتر میں نتائج وصولی کے وقت کرونا سے متعلق ایس او پیز کا خیال رکھنے کی بھی سخت ہدایت کی گئی ہے۔ اگر کسی ووٹر کے پاس ماسک موجود نہ ہو تو الیکشن کمیشن کا عملہ اور ضلعی انتظامیہ ماسک فراہم کرے گا۔
ریٹرننگ افسر کے دفتر میں خصوصی کنٹرول روم قائم کیا جائے گا۔ کنٹرول روم میں ریٹرننگ افسر کے علاہ متعلقہ ڈپٹی کمشنر، پولیس اور رینجرز حکام موجود رہیں گے۔
الیکشن کمیشن نے انتخابی شکایات کو نمٹانے کے حوالے سے سینٹرل اور صوبائی کنٹرول روم قائم کیے ہیں۔