پاکستان میں ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے پولیس پر براہ راست دباؤ ڈالنے کا واقعہ سامنے آیا ہے جس میں وفاقی وزیر کا فون نہ سننے پر آئی جی اسلام آباد کو ہٹائے جانے کا حکم نامہ معطل کردیا گیا ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ تبادلے کا حکم قانون کے مطابق نہیں جبکہ جائزہ لیا جائے گا تبادلہ بدنیتی پر مبنی تو نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی وجوہات پر آئی جی جیسے افسر کو عہدے سے ہٹا دیا گیا، ریاستی اداروں کو اس طرح کمزور اور ذلیل نہیں ہونے دیں گے۔
اسلام آباد پولیس کے آئی جی جان محمد کو وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اعظم سواتی کا فون اٹینڈ نہ کرنے پر عہدے سے ہٹایا گیا۔ وفاقی وزیر اعظم سواتی کا تنازع اپنے فارم ہاوٴس کے قریب خیمہ بستی میں مقیم کچھ ناپسندیدہ عناصر سے جھگڑا چل رہا تھا، وفاقی وزیر کا ناپسندیدہ عناصر کے خلاف کارروائی کے لئے آئی جی اسلام آباد پر شدید دباوٴ تھا جس کی وجہ سے جان محمد نے اعظم سواتی کا فون اٹینڈ کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔
فون اٹینڈ نہ کرنے پر اعظم خان سواتی نے وزیر اعظم عمران خان کو آئی جی کے رویے کے خلاف شکایت کی اور نتیجتاً انہیں اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑگیا۔
وفاقی وزیر کے دباوٴ پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ہفتہ وار تعطیل کے روز جان محمد کو آئی جی کے عہدے سے ہٹانے کا نوٹی فکیشن جاری کردیا۔پیر کے روز اس معاملہ پر سپریم کورٹ نے ازخودنوٹس لیا ۔
آئی جی اسلام آباد نے اس معاملہ پر کہا کہ سنا ہے کسی وزیر کے کہنے پر آئی جی کا تبادلہ کیا گیا، سیکرٹری داخلہ بتائیں کہ آئی جی اسلام آباد کو کیوں ہٹایا، سنا ہے کسی وفاقی وزیر کے بیٹے کا معاملہ ہے، قانون کی حکمرانی قائم رہے گی، اداروں کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔
سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے عدالت نے میں بتایا کہ آئی جی اسلام آباد کو وزیر اعظم کے زبانی حکم پر ہٹایا گیا ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے ٹیلیفون پر کہا تبادلہ کر دیں اور آپ نے کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ آئی جی پولیس وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں، وزیراعظم کا آئی جی کے تبادلے میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے۔
سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کا حکم نامہ معطل کر دیا۔ عدالت نے وفاقی حکومت کو بدھ تک تفصیلی جواب جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔
وفاقی وزیر سینیٹر اعظم سواتی نے اس حوالے سے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی اسلام آباد نے بائیس گھنٹوں تک میری بات تک نہ سنی جس پر میں نے وزیراعظم کو آگاہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے سیکرٹری داخلہ اور وزیرمملکت برائے داخلہ سے بھی رابطہ کیا لیکن ان کا بھی کہنا تھا کہ آئی جی اسلام آباد سے بات نہیں ہورپارہی، اس معاملے پر میں نے وزیراعظم عمران خان کو آگاہ کیا، انہوں نے کہاکہ آئی جی کی تاخیر کی وجہ سے ان لوگوں نے میرے گارڈز پر حملہ کیا اور تین افراد کو زخمی کیا، میں اس معاملہ پر سپریم کورٹ خود جاؤں گا اور چیف جسٹس کو تمام حقائق سے آگاہ کروں گا، مجھے امید ہے کہ حق اور انصاف کی فتح ہوگی۔
وزیراعظم کے حکم پر آئی جی اسلام آباد کو ہٹائے جانے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد اعظم سواتی کے بیٹے عثمان سواتی کی درخواست پر مقدمہ درج کرلیا گیا تھا اور دو خواتین اور ایک آٹھ سالہ بچہ سمیت کئی افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
اس سے قبل آئی جی پنجاب طاہر خان کو بھی حکومت کے احکام نہ ماننے پر عہدے سے ہٹادیا گیا ہے جن کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ پنجاب کے وزیر میاں محمود الرشید کے بیٹے کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے پر کارروائی کی گئی تھی جبکہ ڈی پی او پاک پتن کا بھی خاتون اول بشریٰ بی بی کے سابق شوہر کی شکایت پر راتوں رات تبادلہ کردیا گیا تھا۔