چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے وکلا کی جانب سے پولیس کے سب انسپکٹر پر مبینہ تشدد کے ازخود نوٹس کی سماعت سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں کی۔
لاہور کی سیشن کورٹ میں پولیس سب انسپکٹر پر مبینہ تشدد کے واقعے میں ملوث وکلا کو چیف جسٹس نے طلب کیا۔ اس موقع پر صدر لاہور بار ملک ارشد اور سیکریٹری لاہور بار سہیل مرشد سمیت وکلا کی بڑی تعداد عدالت میں موجود تھی۔
سماعت کے دوران، لاہور بار کے صدر ملک ارشد نے عدالت سے استدعا کی ''زیادتی وکلا کی نہیں بلکہ پولیس کی تھی۔ لہٰذا، اس مقدمے میں سے انسداد دہشت گردی کی دفعات ختم کی جائیں''۔
چیف جسٹس نے مقدمے سے انسداد دہشت گردی کی دفعات معطل کرنے اور نامزد وکلا کی گرفتاریوں سے متعلق حکم امتناع کی استدعا مسترد کردی۔ اُنھوں نے کہا کہ ''میں استعفیٰ دے دوں گا مگر بے انصافی نہیں کروں گا''۔
عدالتی ریمارکس پر وکلا کی جانب سے عدالت میں ''شیم شیم'' کی نعرے بازی کرنے پر چیف جسٹس برہم ہوگئے، اور کہا کہ ''آپ کو شرم آنی چاہیے۔ اپنے والد کے خلاف نعرے لگا رہے ہو۔ نعرے لگانے والے آئندہ میری عدالت میں نہ آئیں''۔
بقول چیف جسٹس، ''میں اس ادارے کا باپ ہوں۔ گالیاں بھی کھانی پڑی تو کھاؤں گا''۔
اس موقع پر سیکرٹری، 'لاہور بار ایسوسی ایشن' کا کہنا تھا کہ اگر آپ نے 'سیون اے ٹی اے' کی دفعات ختم نہ کیں تو وہ عدالت کے باہر دھرنا دیں گے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ دھرنا دیں میں باہر آ کر دیکھتا ہوں کہ کون دھرنا دیتا ہے۔
چند دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شیئر کی گئی تھی، جس میں پنجاب پولیس کے ایک سب انسپکٹر پر وکلاء کی جانب سے لاہور کی سیشن کورٹ میں مبینہ تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے اس کا ازخود نوٹس لیا تھا۔
سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے وکلا کی جانب سے سب انسپکٹر پر تشدد کی ویڈیو آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ویڈیو عدالت میں دکھا کے ذمے داروں کا تعین کریں گے۔