عامر گِل مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی ہیں جو اسلام آباد کے ایک گھر میں صفائی ستھرائی کا کام کرتے تھے۔ پاکستان میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ شروع ہوا تو کچھ دن بعد ہی عامر گِل کو بغیر کوئی نوٹس دیے نوکری سے نکال دیا گیا۔
عامر کے علاوہ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد ایسے ہیں جو روز کما کر کھاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر افراد کا روزگار ختم ہو چکا ہے۔ پاکستان میں کرونا وائرس کے باعث مسیحی برادری کو کافی مشکلات ہیں۔ ایک طرف ان کا روزگار ختم ہو رہا ہے تو دوسری جانب انہیں ایسٹر کے تہوار کی فکر ستا رہی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے گفتگو کرتے ہوئے امداد کا انتظار کرتے عامر گِل نے اپنی کہانی سنائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں تک تو عام حالات میں بھی کوئی نہیں پہنچتا اور اب کرونا وائرس کے باعث تو امداد کی فراہمی ویسے ہی مشکل ہے۔
عامر اپنے دو دیگر ساتھیوں کے ساتھ اسلام آباد کے ایک "بڑے سے گھر" میں صفائی کا کام کرتے تھے۔ ان کا زیادہ تر کام مختلف تقریبات کے بعد پورے گھر کو صاف کرنا ہوتا ہے۔
عامر کو نہیں معلوم کہ جس گھر میں وہ کام کرتے تھے، اس میں کتنے کمرے ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ وہ بہت بڑا گھر تھا جب کہ وہ خود اسلام آباد کی ایک کچی آبادی میں رہتے ہیں جہاں ایک کمرے کی جھونپڑی میں ان کے خاندان کے چار افراد اپنا گزارہ کر رہے ہیں۔
اب چونکہ ایسٹر کا تہوار قریب ہے تو عامر کی پریشانیاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ ان کے بقول "میرے بچے مجھ سے ایسٹر کے لیے نئے کپڑوں اور جوتوں کی فرمائش کر رہے ہیں۔ لیکن میں نے انہیں کہہ دیا ہے کہ ہم اس سال ایسٹر نہیں منائیں گے۔"
خیال رہے کہ پاکستان میں مسیحی برادری اقلیت میں ہے۔ آبادی کے لحاظ سے مسیحی برادری پاکستان کی مجموعی آبادی کا لگ بھگ دو فی صد ہے۔
ان میں سے زیادہ تر لوگ چھوٹے موٹے کاموں سے وابستہ ہیں مثلاً گلی محلوں کی صفائی کرنے والے خاکروب، باورچی وغیرہ۔ بیشتر لوگ کچی آبادی کے چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں جہاں کرونا وائرس کی وبا کے دور میں بھی سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کا تصور ہی نہیں ہے۔
ایسے ہی ایک شخص 25 سالہ ہارون اشرف بھی ہیں جو کرونا وائرس کے سبب اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ وہ ایک ریستوران میں کام کرتے تھے لیکن اب وہ اور ان کے بھائی دونوں بے روزگار ہیں۔
ہارون کی فیملی سات افراد پر مشتمل ہے جن کی کفالت ہارون اور ان کے بھائی کے ذمے ہے۔ یہ خاندان دو کمروں پر مشتمل ایک چھوٹے سے مکان میں اپنا وقت گزار رہا ہے۔
ہارون اشرف کا کہنا تھا کہ ہمیں جو روکھا سوکھا کھانے کو مل جاتا تھا، کرونا وائرس نے ہم سے وہ بھی چھین لیا ہے۔
کئی مسیحی افراد کی طرح ہارون کی پریشانی بھی ایسٹر سے متعلق ہے۔ ایسٹر کا تہوار جو موسمِ بہار کی خوشیوں کے ساتھ آتا ہے، ہارون کے بقول اس مرتبہ یہ افسردگی اور مایوسی لے کر آ رہا ہے۔
ہارون اشرف امید کر رہے ہیں کہ کرونا وائرس ریلیف فنڈ کے تحت انہیں بھی کوئی مالی امداد مل جائے گی اور وہ اپنے کچھ اخراجات اس امداد سے پورے کر سکیں گے۔
شارون شکیل کے لیے بھی رواں سال ایسٹر کا تہوار پریشانی کا سبب بن گیا ہے۔ حال ہی میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا جن کی تدفین کے لیے شارون کو رقم ادھار لینا پڑی تھی۔ اب کرونا وائرس کے باعث ان کی نوکری بھی ختم ہو گئی ہے۔
شارون کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کھانے کو پیسے نہیں ہیں اور ہم قرض تلے دبے ہوئے ہیں۔ ہم ایسٹر کیسے منائیں؟
پاکستان میں مسیحی برادری سے متعلق ایک غیر سرکاری تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر عمر وڑائچ کہتے ہیں کہ کرونا وائرس کے اس بحران میں مسیحی برادری گنجان آباد کچی بستیوں میں محدود وسائل کے ساتھ گزارہ کر رہی ہے۔
عمر وڑائچ کے بقول ایسے حالات میں ان کے پاس صرف دو ہی راستے بچتے ہیں۔ یا تو وہ گھروں میں بھوک سے لڑتے رہیں یا پھر باہر نکل کر وائرس کا شکار ہوجائیں۔
دوسری جانب پاکستان میں حکومت نے کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اجتماعات پر پابندی عائد کی ہوئی ہے جس کے باعث اس مرتبہ مسیحی برادری ایسٹر کا تہوار اجتماعی طور پر نہیں منا سکے گی۔